آج کے جدید وترقی یافتہ دور میں کسی قوم ،معاشرے یا ملک کی ترقی ،مضبوطی ،استحکام اورسلامتی کا اندازہ اس کی بنیادی چیز یعنی معاشی طاقت کو دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے کیونکہ جس ملک یا قوم کی معاشی حالت اچھی و بہتر ہوگی اس ملک کا ہرشعبہ ترقی کررہا ہوگا چاہے وہ سماجی ہو، معاشرتی ہو، سیاسی ہو یا دفاعی ہو۔مگر ہماری قوم کا المیہ یہ ہے کہ ہم نے گذشتہ ستر سالوں سے معیشت کی بہتری کے لئے خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے جبکہ گذشتہ تقریباً پچیس تیس سالوں سے تو معیشت کو صرف قرضوں، امداد اور بھیک کے سہارے ہی چلانے کی کوشش کررہے ہیں جس کی وجہ سے عالمی مالیاتی ادارے اور ان کے روح رواںممالک ہم پر اپنی مرضی ومنشاءمسلط کرتے رہے ہیںجبکہ ہم اپنے وسائل پر بھروسہ کرنے کے بجائے ان کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بنے رہنے میں ہی خوشیوں کے شادیانے بجاتے رہے ہیں ۔
اسی تناظر میں گذشتہ ساڑھے چارسالوں میں موجودہ ارباب اختیار کے قول وفعل میں بھی واضح تضادات دیکھنے میں آئے ہیں کیونکہ انتخابات سے پہلے مارچ 2013میں مسلم لیگ ن نے ماڈل ٹاﺅن لاہورمیں معاشی ماہرین کی ایک میٹنگ چودھری نثار علی خان کی سربراہی میں منعقد کی تھی جس میں معیشت کی بہتری و ترقی کے لئے تجاویزمانگیں گئی تھیں اس کی وجہ سے امید ہوچلی تھی کہ سابقہ واقعات وتجربات میں پک کر مسلم لیگ کی قیادت کندن بن چکی ہے اور اب معیشت کی بہتری کے لئے اچھے دور کا آغاز ہونے والا ہے کیونکہ اس وقت مسلم لیگ ن کا انتخابی منشورکی بنیاد آزاد و خودمختار معیشت تھا مگراس وقت میری تمام امیدیں کافور ہوگئیں۔
جب وفاقی وزیر خزانہ حکومت کے قیام میں آتے ہی آئی ایم ایف کے در پر جھولی اٹھائے ہوئے چلے گئے جبکہ اب تک موجودہ حکومت کی تمام معاشی منصوبہ بندی اور اقتصادی پالیسیاں مسلم لیگ ن کے منشور کی یکسر مخالف سمت میں ہیں ۔قرضوں کے حصول کی تاویل انہوں نے یہ دی کہ پچھلی حکومتوں کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کی معیشت دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئی تھی جس کی وجہ سے آئی ایم ایف سے قرض کی اشد ضرورت تھی ۔
اب جبکہ گزشتہ ساڑھے چار سالوں سے مسلم لیگ ن کی حکومت ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا اب تک گذشتہ حکومت کی ناقص پالیسیوں کے اثرات برقرار ہیں کہ قرض کم ہونے کے بجائے بڑھتا جارہا ہے یا موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیاں ہی ناپائیدار اور وقتی ہیں ؟
کیونکہ پاکستان کے مرکزی بینک کے مطابق پاکستان پر بیرونی قرضہ اور ادائیگیوں کا بوجھ جو جون 2013میں 60.8ارب ڈالرز تھا اس میں ستائیس فیصدکے تاریخی اضافے کے بعد82.98ارب ڈالرز ہوچکا ہے ۔ اسی طرح سے حکومت پر اندرونی قرضوں وادائیگیوں کا بوجھ جو مئی 2013میں 13,516ارب روپے تھا وہ بھی 38فیصد کے تاریخی اضافے کے بعد 21,770ارب روپے ہوچکا ہے ۔ اب کوئی بتلائے ہمیں کہ ہم بتلائیں کیا ؟ کہ قرضوں و ادائیگیوں کے اندرونی و بیرونی دباﺅ میں اضافے سے معیشت کیسے مضبوط ومستحکم ہوسکتی ہے ۔
اس کے علاوہ برآمدات میں کمی کے حوالے سے موجودہ ارباب اختیار کایہ کہنا ہے کہ مالی سال 2012-13 میں پاکستان کی برآمدات 24.46ارب ڈالرز تھیں جو ہماری حکومت کے ایک سال کے دوران مالی سال 2013-14میں 25.11ارب ڈالرز کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھیں تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب قرضوں کے حصول کی وجہ سے گزشتہ حکومت کی ناقص پالیسیوں کا شاخسانہ ہوسکتا ہے تو برآمدات میں اضافہ کیونکر۔موجودہ حکومت کے بجائے گزشتہ حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے نہیں ہوسکتا؟ جبکہ پاکستان کی ستر سال کی تاریخ کی برآمدات کا تجزیہ کریں توکوئی ایسا سال نہیں گذرا جب برآمدات پچھلے سال کی نسبت زیادہ نہ ہوئی ہوں ۔
1985میں ہماری برآمدات 3.07ارب ڈالرز تھیں جس میں 2013-14تک صرف اور صرف اضافہ ہی ہوا ہے مگر موجودہ حکومت کے دورمیں پہلی بار ایسا ہوا کہ برآمدات گذشتہ سال کے مقابلے میں کم سے کم ہوتی چلی جارہی ہیں ۔ اس کے علاوہ درآمدات میں بھی موجودہ دور میں تاریخی بلندی دیکھی ہے جو موجودہ مالی سال کے جولائی سے اکتوبر کے صرف چار ماہ میں 19.163ارب ڈالرز کی سطح پر پہنچ گئی ہے جبکہ برآمدات 7.056ارب ڈالرز کی سطح پر ہے جس کی وجہ سے تجارتی خسارہ بھی تاریخی بلندیوں کو چھو رہا ہے جو موجودہ چار ماہ میں 12.107ارب ڈالرز پر پہنچ گیا ہے جو کہ گذشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں اکتیس فیصد زیادہ ہے ۔
اس کے ساتھ ساتھ کرنٹ اکاﺅنٹ خسارے میں بھی تاریخی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے کیونکہ مالی سال 2015-16میں کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ 4.87ارب ڈالرز تھا جو مالی سال 2016-17میں 61فیصد کے اضافے کے بعد 12.44ارب ڈالرزکی سطح پر پہنچا اور اس خسارے میں اضافے کا تسلسل اب بھی جاری ہے کہ موجودہ مالی سال کے صرف چار ماہ میں کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ 5.013ارب ڈالرز پر پہنچ گیا ہے جو کہ گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 55فیصد زائد ہے یعنی کہ موجودہ مالی سال کے اختتام پر کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ 15ارب ڈالرز سے تجاوز ہونے کا امکان ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان کے بجٹ خسارے میں بھی اضافہ ہورہا ہے جو کہ تخمینے سے 31فیصد ذائد ہونے کا امکان ہے۔ورلڈ بینک نے اس اندیشے کا اظہارکیا ہے کہ پاکستان کو اپنی مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اس وقت31ارب ڈالرز کی فوری ضرورت ہے جو مجموعی جی ڈی پی کا 9فیصد بنتا ہے جبکہ حکومت پاکستان کا یہ تخمینہ18ارب ڈالرز کا ہے جو کہ حقائق کے منافی ہے ۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ معیشت کے بارے میں ارباب اختیار کے بیانات زمینی سچائی کے بالکل برعکس ہیں۔مگر ایک مسلمان ہونے کے ناطے میںمایوسی یا ناامیدی کو کفر گردانتا ہوں اس لئے میرا ماننا ہے کہ اگر ہم اب بھی اپنی معیشت کو بہتری کی جانب گامزن کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے اپنی معاشی پالیسیوں میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کرنی ہوں گی۔جس میں معیشت کی بہتری کے لئے قرضوں، امداد اور بھیک کا سہارا لینے کے بجائے اپنے ملک کے حقیقی و زمینی وسائل پر بھروسہ کرنا ہوگاجبکہ پاکستان کا ایک بڑا اثاثہ اس کی افرادی قوت ہے۔
برآمدات کو فروغ دینے اور درآمدات کی حوصلہ شکنی کرنے کی پالیسی کواپنانا ہوگا۔برآمدات بڑھانے کے لئے ہم اب تک امریکہ اور یورپی ممالک پر اکتفا کئے بیٹھے ہیں اس پالیسی میں بھی تبدیلی لانی ہوگی کیونکہ یورپی وامریکی منڈیوںکے علاوہ غیر روایتی منڈیوں کو تلاش کرنا ہوگا ۔ایسی کئی منڈیاں ہیں جن پر توجہ نہیں دی گئی ان میں افریقی ممالک جن میں جنوبی افریقہ، مراکش، الجزائر، نائجیریا، مصر ، تےونس، ماریشس ، کینیا، انگولا وغیرہ شامل ہیں ، وسطی ایشیائی ممالک جن میں قازقستان ، ترکمانستان، کرغیزستان ، ازبکستان وغیرہ شامل ہیں اور مشرق بعید کے ممالک جن میں ملائشیا، انڈونیشیاء، تھائی لینڈ ، سنگاپور ،فلپائن، ویت نام وغیرہ ایسی منڈیاں ہیں جن پر اگر توجہ دی جائے تو ہماری برآمدات تین گنا بڑھائی جاسکتی ہیں کیونکہ ان تمام ممالک میں ایسی بیشتر مصنوعات کی کھپت ہے جو کہ پاکستان باآسانی برآمد کرسکتا ہے خصوصاً افریقی ممالک میں پاکستان کی برآمدات کافی بڑھائی جاسکتی ہیں کیونکہ آبادی کے لحاظ سے براعظم ایشیا کے بعد براعظم افریقہ کا نمبر ہے جس کی آبادی سوا ارب سے زائد ہے اورافریقہ میں کئی ایسی پاکستانی اشیا ہیں جن کی برآمد کی جاسکتی ہے ان میں کمپیوٹرز اور آئی ٹی پروڈکٹس، کپڑا اور کپڑے کی بنی ہوئی مصنوعات، ادویات اور خوردنی اشیا وغیرہ شامل ہیں۔ اس لئے میری ارباب اختیار سے گذارش ہے کہ پاکستان کی معاشی مضبوطی کے لئے پائیدار، مستحکم اورطویل المیعاد پالیسیوں کے تسلسل کو یقینی بنائیں اور وزارت منصوبہ بندی اور وزارت خزانہ میں بیٹھے ہوئے افراد جو غیر ملکی آقاﺅں کے اشاروں پر پالیسیاں ترتیب دیتے ہیں ان سے فی الفور جان چھڑائی جائے ۔ اسی صورت میں پاکستان معاشی مضبوطی حاصل کرسکتا ہے۔
معاشی مضبوطی
Nov 26, 2017