عرصہ ہوا بچپن میں ایک انڈین فلم دیکھی تھی۔ جس کا نام تھا ًبھائی بھائی ً اس کا ایک گانا بڑا مزے دار تھا ۔ جس کی بظاہر فلم کے نام سے کوئی نسبت نظر نہ آتی تھی۔گانے کے بول بہت دلچسپ تھے ًاس دنیامیں سب چور چور کوئی چوری کرے خزانے کی کوئی آنے یا دو آنے کی۔ کوئی مرغی چور کوئی انڈہ چور۔ کوئی بڑا چور کوئی چھوٹا چور۔ کوئی رانی جی کا سالہ چور
اس گانے کے سب بول موجودہ زمانہ کے حالات پر بالکل منطبق ہوتے ہیں۔ اور حسب حال ہیں۔ پہلے پانامہ لیکس کا سلسلہ چلا۔ جس میں کئی ملکوں کے صدر، وزیراعظم اور کرتا دھرتا شامل پائے گئے۔ بہت سارے شرم کے مارے خود ہی پردہ سکرین سے ہٹ گئے۔ کئی اس خیال سے مستعفی ہو گئے کہ پہلے اپنی بے گناہی ثابت کریں گے پھر واپس آئیں گے۔ تمام مہذب اور ترقی یافتہ ممالک کے سر کردہ حضرات جو پانامہ کی زد میں آئے انہوں نے بغیر کسی تردد کے عہدہ چھوڑ دیا اور چپکے سے گھر چلے گئے اور انہوں نے اسی میں اپنی عزت سمجھی۔
مگر ہماری مملکت خداداد پاکستان جس کا نعرہ ہے پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ اس کے سر براہان اور ان کے خاندان کے افراد نے تمام ریکارڈ سامنے آنے کے باوجود با عزت راستہ اپنانے کے بجائے الٹا اداروں کو ہدف بنانا شروع کر دیا۔ اور کنایوں میں مختلف طریقوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش شروع کر دی کہ یہ احتساب نہیں انتقام ہے۔ یہ بتائے بغیر کہ کس کام کے خلاف انتقام ہے اور کون انتقام لے رہا ہے۔ بہرحال معا ملات آہستہ آہستہ ہاتھ سے نکل گئے۔ فیصلے کی گھڑی آن پہنچی اور ملک کی سب سے بڑی عدالت نے نا اہل کر دیا۔اور باقی ماندہ معاملات نیب NAB کے سپرد کر دئیے۔ جس نے ریفرنس بنا کر عدالت کے حوالے کر دئیے۔
۱ب ایک اور عذاب کی صورت میں وہیں سے Paradise Leaks آگئی ہیں۔ انہوں نے کئی ممالک کے سربراہان اور سر کردہ حضرات کو expose کر دیا ہے اور ساری دنیا میںاس نے پھر اودھم مچا دیا ہے ۔ اور ایسے ایسے لوگ اسکی زد میں آگئے ہیں۔ جن کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔
ہم کالم بھی لکھتے ہیں۔ اور دو تین ٹیلی ویژن چینلز پر بھی جانے کا اتفاق ہو تا ہے۔ ہمیشہ اس کا خصوصی ذکر ہو تا ہے کہ لوگ بیچارے غربت کی چکی میں پس رہے ہوتے ہیں۔اور ان کا مزید خون نچوڑنے کے حکومتی ہتھکنڈوں کولوگ خاموشی سے برداشت کر جاتے ہیں۔ اس پر بڑا غور و خوض کرنے کے بعد ہمارے دانش ور دوستوں نے نعرہ لگا دیا ہے۔ ًاس دنیا میں سب چور چور ہیں۔ ہر بندہ دائو لگائے بیٹھا ہے۔ اور ہر وقت گھات میں ہے۔ ایک کا ہاتھ دوسرے کی جیب میں ہے۔ روز مرہ کی اشیاء بشمول سبزی اور دال وغیرہ آئے دن مہنگی ہوتی رہتی ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ ریڑھی والے سے لے کر ہر چھوٹے سے چھوٹے level کا بندہ شام کو دیہاڑی بنا لیتا ہے۔ آپ بجلی ٹھیک کرنے والے، نلکا درست کرنے والے اور چھوٹے سے چھوٹے کام کرنے والے کو بلوا کر دیکھیں۔ آپ کو لگ پتہ جائے گا۔ ہر پاکستانی لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کئے بیٹھا ہے اس سے بڑھ کر دوکاندار۔ جو ہمیشہ من مانی کرتے ہیں مہنگائی نے غریب آدمی کا جینا محال کر دیا ہے۔ نہ بجلی ہے نہ گیس۔ بجلی کا بل دیکھیں۔ ٹیکس ہی ٹیکس۔ ہر کام کی لاگت دوگنا کر دی گئی ہے مرکزی حکومت اور صوبائی حکومت دونوںآئے دن ٹیکسوں میں اضافہ کرتی رہتی ہیں۔ کبھی ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافہ کبھی کسی اور ٹیکس میں اضافہ۔ اس سب کچھ کے باوجود لوگ سڑکوں پر کیوں نہیںآتے اور حکومت کے خلاف پر زور احتجاج کیوںنہیں کرتے۔ کیونکہ سب اپنی اپنی جگہ چوری کر رہے ہیں۔ سب چور ہیں۔ کوئی چھوٹا کوئی بڑا۔ چھوٹا چور بڑے چور کو کچھ نہیں کہتا۔ اللہ تعالیٰ ملک پاکستان کی خیر کرے۔ چھوٹے بڑے سب چور پکڑے جائیں۔ اور اللہ آئندہ ان کو ہدایت دے۔