بابائے صحافت مولانا ظفر علی خانؒ

موت و حیات کا سلسلہ روز اول سے چلا آرہا ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ صرف ذات خدا وند کریم ہے جو قائم و دائم ہے۔دنیا میں صدا نہ کوئی رہا اور نہ ہی کوئی رہے گا۔ کسی آدمی کا مرنا اس چرخ نیلی فام کے نیچے کوئی اچنبھے کی بات نہیں ۔شب و روز ہم دیکھ رہے ہیں کہ بچے، بوڑھے،مرد عورتیں،توانا، ناتواں کا ایک سیلاب ہے جو قبرستان کی طرف رواںدواں ہے لیکن بعض موتیں ایسی ہیں کہ جن کا زخم صدیوں تک نہیں بھلایا جا سکتا۔ جس طرح جینے والے کئی طرح کے ہیں اسی طرح مرنے والے بھی کئی طرح کے ہیں۔زندگی کے گوناگوں ڈھنگ ہیں تو موت کے انداز بھی رنگا رنگ ہیں۔ ایک وہ لوگ ہیں جو زندگی کی بھیک مانگتے جیتے ہیں اور ایسے ہی مر جاتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ زمانے سے لڑتے لڑتے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر زندگی گزارتے ہیں اور پھر جب دارِ فانی سے کوچ کرتے ہیں تو بڑی شان و شوکت سے کوچ کرتے ہیں۔ان لوگوں کے کارناموں کو تاریخ اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے، ان کی عظیم روحوں کے مینار اپنے سینے پر بناتی ہے۔ اور وہ روحیں رہتی دنیا تک اپنی عظمت کے مناظر دیکھتی ہیں۔
بعد از وفات تربت مادر زمین محو
در سینہ ہائے مردم عارف مزار ماست
عظیم انسان کوایک ایسے ہی دنیا مولانا ظفر علی خان کے نام سے جانتی ہے۔ مولانا ظفر علی خان سیالکوٹ کے نواحی گائوں کوٹ میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم وزیر آباد میں حاصل کی۔میٹرک کا امتحان پٹیالہ میں دیا اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے بی اے کی ڈگری لی۔ مولانا ظفر علی خان کو شعر و شاعری کا شوق طالب علمی کے زمانے سے تھا۔علامہ شبلی نعمانی اور سرسید ان کے شعر سن کر حوصلہ افزائی فرماتے۔یہ وہ دور تھا کہ جب علی گڑھ کی فضا مولانا شبلی نعمانی اور مولانا الطاف حسین حالی کی پر سوز لحنوں سے معمور تھی۔ادبی حلقوں میں ایک ہلچل بپا تھی۔ اور شعرا قومی احساسات کو موضوع شعر بناتے تھے۔آپ کی شاعری کا دوسرا دور کالج کے بعد قیام حیدرآباد کا ہے۔ اس دور میں آپ کی نظمیں ’’دکن ریویو‘‘ اور ’’مخزن‘‘ چھپتی رہیں۔ دل قومی جذبات ست سرشار تھا۔ 1909ء کے بعد آپ کی شاعری کا تیسرا دور شروع ہوتا ہے۔ جب انہوں نے پنجاب میں آکر ’’ زمیندار‘‘ کی ادارت سنبھالی۔لاہور میں شاعر مشرق علامہ محمد اقبال ؒ اور دیگر اکابرین کی صحبتیں میسر آئیں اور اس طرح انہوں نے قومی جذبات کو شعری جامہ پہنانا شروع کر دیا۔ سیاست میں دلچسپی بڑھ گئی اور پرجوش نظمیں لکھی گئیں۔پہلی جنگ عظیم کے بعد ترک موالات اور خلافت کی تحریکیں شروع ہوئیں۔اسی دور میں مولانا ظفر علی خان کی قومی سیاسی شاعری اپنے عروج پر پہنچی ۔اس کی پاداش میں آپ کو پانچ سال کے لیے قید کر دیا گیا ۔زندان سے باہر آکر مولانا کی شاعری سیاسی اور ہنگامی بن گئی۔ آپ کی بیشتر نظمیں ہنگامی حالات سے تعلق رکھتی ہیں۔یہ ہنگامی نظمیں ان کے شعری مجموعے ،چمنستان،بہارستان اور نگارستان میں موجود ہیں۔تاریخ ادب گواہ ہے کہ اردوشاعری میں قومی شعور و احساس کی ترجمانی کا باقاعدہ سلسلہ 1857ء کے بعد شروع ہوتا ہے۔ جب حب الوطنی کا واضح تصور انجمن پنجاب کے مشاعروں میں پیش کیا گیا تھا۔ مولانا ظفر علی خان اور حکیم الامت علامہ اقبال نے اسے عظمت عطا کی ۔
مولانا ظفر علی خان بہے زود گو شاعر تھے۔نادر اچھوتے قافیے استعمال کرتے تھے۔ انہیں نے مشکل سے مشکل قافیوں پر طویل سے طویل نظمیں کہہ کر دوسروں کے قافیے تنگ کر دیے۔ اور وہ خود اس پر ناز کرتے تھے۔اس کا اظہار وہ اس طریقے سے کرتے ہیں: ؎
تو استجان دہلی کو صدائے عامہ دیتا ہوں
کہ داد فکر دیں ان قافیوں میں ان ردیوں میں
خان صاحب کو دنیا کے بلند پایہ خطبا میں بھی شمار کیا جاتا ہے۔ کوئی مصلحت ان کو وہ بات کہنے سے نہ روک سکتی تھی جسے وہ حق سمجھتے تھے۔ وہ اسلام کے سچے اور بے لوث خاد م تھے۔وہ مسلمانوں میں صحیح اسلامی جذبہ پیدا کرنے کے خواہاں تھے۔ آپ کی آواز میں بجلی کی کڑک تھی۔ ان کی خطابت فقط زور ردائی اور ولولہ انگیزی کی خطابت نہ تھی بلکہ ان کی خطابت علم آموز اور فکر انگیز تھی۔ ہزاروں کا مجمع ان کی تقریر، ہم تن گوش ہو کے سنتا ،مطالب کو واضح اور آسان پیرائے میں بیان کرنے میں انہیں ملکہ حاصل تھا۔سامعین پر جو تاثر پیدا کرنا چاہتے تھے پیدا کر دیتے تھے۔ یہ ان کی قادر الکلامی کی انتہا تھی خوابیدہ قوم کو بیدا ر کرنے اور اس میں آزادی کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے اپنی زبان کو نہایت اچھے انداز میں استعمال کیا۔
1920ء میں کل ہند مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگرس کے سالانہ اجلاس یکے بعد دیگر گول باغ امرتسر میں منعقد ہوئے ۔ مولانا نے دونوں جلسوں میں اتحاد کے موضوع پر وہ دھواں دار تقریر کی کہ سامعین نے ہندو مسلم بھائی بھائی کا نعرہ بلند کر دیا۔ سار باغ ان نعروں سے گونج اٹھا۔ خداوند کریم نے ان کی زبان میںایسی تاثیر رکھی تھی کہ لاکھوں کے مجمع کو ایک منٹ میں ہنسا دیتے اور رلا دیتے تھے۔طرز بیاں اتنا اعلیٰ کہ گھنٹوں تقریر کرتے رہتے پھر بھی سامعین پر تھکاوٹ طاری نہ ہوتی۔ جب لاہور سے سید ممتاز علی بچوں کے لیے ’’پھول‘‘ اور عورتوں کے لیے ’’تہذیب نسواں ‘‘ نکالتے تھے اس دور میں مولانا ظفر علی خان کے والد مولانا سراج الدین کرم آبادی نے ’’ہفت روز ہ زمیندار‘‘کا اجرا کیا۔ جس کا ابتدائی مقصد کاشتکاروں کی مشکلات اور مسائل کو پیش کرنا تھا۔ لیکن بعد میں اس کے مقاصد وسیع ہوتے چلے گئے۔ اور یہی اخبار میدان صحافت کا سرخیل بن گیا۔ اپنے والد کی وفات کے بعد اس کی ادارت مولانا ظفر علی خان نے سنبھالی اور دفتر کرم آباد سے لاہور منتقل کر دیا گیا۔ ۔’’زمیندار‘‘ حصول آزادی تک ہندوستان کی سیاسی بساط پر چھایا رہا۔ اور مسلمانوں کے سیاسی ناموس کی حیثیت سے نڈر اور بے باک صحافت کا نقیب رہا۔ اور اس کا ڈنکا بجتا رہا۔ ہندوستان کے ہندوئوں نے جگہ جگہ اس کے خلاف جلوس نکالے اور مطالبہ کیا کہ ’’زمیندار ‘‘ کوبند کر دیا جائے۔ چنانچہ انگریز حکومت نے اخبار پر پابندی عائد کر دی۔ ’’زمیندار‘‘ انگریز کے دور میں حق گوئی کی وجہ سے معتوب رہا اور اسکی پاداش میں مولانا کو کئی بار گرفتار کیا گیا،اخبار بند کر دیا گیا اور پریس ضبط کر لیا گیا۔ لیکن بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان نے ہمیشہ مسلمانوں کی صحیح ترجمانی کی۔جب بھی ’’زمیندار ‘‘ کو کوئی نقصان پہنچتاتو پورے ملک سے فنڈ اکٹھا ہوتا اور جلد ہی نقصان کی تلافی ہو جاتی۔’’زمیندار ‘‘ کو پنجاب میں ام الجرائد اور مولانا ظفر علی خان کو ’’با بائے صحافت ‘‘ کا خطاب ملا۔ آخر کار ہنگامہ خیز اور پر مصائب زندگی گزارنے کے بعد 1956ء میں مولانا ظفر علی خان اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔خداوند کریم انہیں غریق رحمت فرمائے۔ مولانا کو وزیر آباد کے قریب کرم آباد میں سپرد خاک کیا گیا۔ ان کا مزار آج بھی مرجع خلائق بنا ہوا ہے۔ ؎
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
مولانا مرحوم ہمیشہ قلم کی عصمت کو عزیز سمجھتے تھے ۔صحافت ان کی نظر میں ایک مقدس اور پاکیزہ مشن تھا۔ جب تک اردو زبان اور صحافت زندہ ہے مولانا ظفر علی خان بھی زندہ تابندہ رہیں گے۔

ای پیپر دی نیشن