اُس زمانے میں لگتا یہی تھا کہ غلامی کی سیاہ رات ختم اور صبحِ آزادی طلوع ہونے کوہے، لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔ وقت کے ساتھ ظالم اور قابض دُشمن نے زیادہ مضبوطی سے اپنے پنجے گاڑ لئے۔ کشمیریوں کا اتحاد بھی کمزور ہوا۔ ’’کل جماعتی حریّت کانفرنس‘‘ کے دو حصے ہو گئے۔ پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے تو کشمیر کی قومی پالیسی کا بیڑہ ہی غرق کر دیا۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں سے ہٹ کر طرح طرح کے روڈ میپ زیرِ بحث آنے لگے جس سے ’کشمیر کاز‘ کو سخت نقصان پہنچا۔ مقبوضہ کشمیر میں سید علی گیلانی اور ان کے ساتھیوں نے اس طرح کی تجاویز کی سخت مخالفت کی اور حقِ خودارادیت کے مطالبے پر ڈٹے رہے۔ جون 2005ء میں جب حریّت کانفرنس کے کچھ لیڈر ایک معاہدے کے تحت شروع ہونے والی ’’سری نگر۔ مظفر آباد بس سروس‘‘ کے ذریعے پاکستان آئے تو ان کے ساتھ سیّد علی گیلانی نہیں آئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ مَیں تو پاکستان جانے کی آرزو سے زندہ ہوں۔ پاکستان میرے دِل میں بستا ہے۔ مکّہ مکر ّمہ اور مدینہ منو ّرہ کے بعد مجھے سب سے زیادہ محبت سرزمینِ پاکستان سے ہے۔ لیکن میں بس سروس کے ذریعے اور بھارتی شہری کی حیثیت سے پاکستان نہیںجا سکتا۔‘‘ کشمیر کا یہ مجاہد، اسلام اور پاکستان کی محبت سے سرشار ہے اور تحریکِ آزادی کی روحِ رواں ہے۔ اس کا واضح اور دو ٹوک مؤقف ہے کہ جموں کشمیر، پاکستان کا قدرتی حصہ ہے۔ اس کے دریائوں کا رُخ پاکستان کی طرف ہے۔ اس کے زمینی راستے پاکستان کی طرف جاتے ہیں۔ اسے پاکستان ہی میں شامل ہونا چاہیئے۔ وہ کہتا ہے ، ’’ہمارا آزادی کا مطالبہ سیکولرزم، سوشلزم یا کشمیریت کے لئے نہیں بلکہ اسلام کے لیے ہے۔‘‘
وہ نعرہ زن ہے،
آزادی کا مطلب کیا؟ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ۔
اس کی پکار ہے ،
’’اسلام کے تعلق سے ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے۔‘‘
کشمیر کی موجودہ بے خوف اور دلیرانہ تحریک انتفاضہ ہے جس میں کشمیر کے نوجوانوں کا کردار سب سے نمایاں ہے۔ بھارت کی سات لاکھ جدید اسلحہ سے لیس فوج کی مزاحمت جذبہ، ایمان و حریّت سے سرشار اور وسائل سے محروم نوجوان کر رہے ہیں۔ اسلام اور پاکستان سے محبت رکھنے والے حزب المجاہدین کے ایک نوخیز کمانڈر برھان مظفر وانی نے سوشل میڈیا کے ذریعے کشمیری نوجوانوں میں نئے اور جدید طرز کے ساتھ بیداری کی لہر دوڑا دی۔ یہ لہر اتنے مؤثر انداز سے پوری وادی میں پھیل گئی کہ بھارتی حکومت کو مصیبت پڑ گئی اور وہ اس کی جان کے درپے ہو گئی۔ بالآخر اس نے برھان وانی اور اس کے کئی ساتھیوں کو 8جولائی 2016ء کو شہید کر دیا۔ اس شہادت نے تو گویا پوری وادی میں آگ لگا دی۔ لاکھوں افراد نے برہانی وانی شہید کی نمازِ جنازہ میں شرکت کی۔ کم و بیش 40مرتبہ اس کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ بیداری کی یہ شدید لہر اب تک موجود ہے۔ پیلٹ گنز کے استعمال سے سینکڑوں کشمیریوں کو بینائی سے محروم کیا گیا۔ ہزاروں زخمی اور سینکڑوں شہید ہوئے۔ کرفیو مسلسل کئی ماہ تک نافذ رہاہے۔ بھارت کے ظلم و تشدد میں کوئی کمی نہیں آئی۔ عبدالمنان وانی جو ایک نہایت اعلیٰ تعلیم یافتہ 26سالہ نوجوان دانشورتھے۔ اپنے قلم کے ذریعے کشمیریوں پر ظلم و ستم کے خلاف آواز اُٹھاتے رہے۔ جب ان کی تحریروں پر پابندیاں لگنے لگیں تو مجبوراً وہ ان اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان مجاہدوں میں شامل ہو گئے۔ جنہوں نے اپناکیریئر ادھورا چھوڑ کر بندوق اُٹھا لی تھی۔ چند دن قبل منان وانی کو بھی اپنے کچھ ساتھیوں سمیت شہید کر دیا گیا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بغاوت کی اس لہر نے بھارتی سیکورٹی اداروں کو پریشان کر دیا ہے۔ بھارت اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہیں آیا وہ کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت دینے کے لئے قطعاً تیار نہیں ہے۔ کشمیریوں کی بے مثال قربانیوں اور بھرپور جدوجہد سے اگرچہ مسئلے کے حل کی فضا تو بنی ہوئی ہے۔ لیکن بھارت جیسے ڈھیٹ اور کمینے دُشمن کو بھرپور دھکا لگانے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان نے ان کی مدد کا حق ادا نہیں کیا۔ عالمِ اسلام بھی خاموش ہے۔ اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی ادارے بھی اسے سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ 71برس سے یہ مسئلہ حل طلب ہے۔ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک تیز رفتار اور اَن تھک سفارتی تحریک چلائے۔ پاکستانی سفارت خانوں کی کارکردگی انتہائی مایوس کُن ہے۔ مختلف ممالک میں ہمارے سفارت کار کام نہیں عیاشی کرتے ہیں۔ وہ پاکستان کی حقیقی عملی و نظریاتی نمائندگی نہیں کرتے۔ اگر وہ متعلقہ ملک میں پاکستان کے قومی مقاصد کو بھرپور طریقے سے اجاگر کرتے اور وہاں کی حکومتوں اور عوام کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کرتے تو دُنیا اِس سرد مہری کا ثبوت نہ دیتی جو اب تک دیتی رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ اندرونِ ملک بھی کشمیریوں کے حق میں بیداری کی بھرپور مہم چلائی جائے۔ بھارت کی ثقافتی یلغار کا بھرپور مقابلہ کیا جائے۔ محض 5فروری کا ’’یوم یک جہتی‘‘ کافی نہیں ہے۔ یہ کام ہمہ وقت اور ہمہ جہت کرنے کا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستانی ’’پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی‘‘ کو بھی فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو اس کا چیئرمین بنانا تو گویا کشمیرکاز سے مذاق کرنا تھا۔ نئی حکومت اس منصب پر کسی ایسے شخص کو فائز کرے جو تحریک آزادیء کشمیر اور کشمیریوں سے بے پناہ تعلقِ خاطر رکھتا ہو اور ان کے لیے بھرپور جدوجہد کرنے کا عزم، حوصلہ اور توانائی بھی رکھتا ہو۔ امورِ کشمیر کے وفاقی وزیر میں بھی ایسی ہی خصوصیات ہونی چاہئیں مزید یہ کہ مسئلہ کشمیر سے فکری اور نظریاتی وابستگی رکھنے والے انتہائی قابل اور Committed لوگوں کو مسلسل دُنیا بھر میں بھیجا جاتا رہے۔ جو ہر ملک میں مسئلہ کی اصل صورتِ حال وہاں کی حکومتوں اور عوام کے سامنے رکھیں۔ دُنیا اس مسئلہ سے صحیح طور پر آگاہ ہو گی تو بھارت کو دھکا لگے گا ورنہ تو وہ سمجھتا رہے گا کہ پاکستان کیونکہ اپنی طاقت سے کشمیر حاصل نہیں کر سکتا۔ اس لیے اسے لٹکائے رکھا جائے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اسے لٹکائے رکھنے ہی میں اس کا فائدہ ہے اور ہندو بنیا اپنے فائدے کی چیز پر ہی گرتا ہے۔
اخذو مطالعہ
۱۔مسئلہ ء کشمیر کی نظریاتی اور آئینی بنیادیں از پروفیسر الیف الدین ترابی
۲۔مسئلہ ء کشمیر کے امکانی حل از ارشاد محمود
۳۔تاریخ کشمیر از پروفیسرنذیر احمد تشنہ
۴۔اقبال روحِ دین کا شناسااز سیّد علی گیلانی
۵۔ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن شمارہ اگست 2016ئ۔
۶۔نوائے وقت
۷۔انٹرنیٹ۔
۸۔ذاتی یادداشتیں۔ (ختم شد)