انگلینڈ ، کینڈا ، امریکہ اور پاکستان کی باتیں

Nov 26, 2018

میری گلی کے دو گھر ایسے ہیں جن کے بچے جوان ہو کر انگلینڈ ،کینڈا اورامریکہ میں سیٹل ہیں ۔ ایک پڑوسی عمران صاحب اپنی بیوی کیساتھ امریکہ گئے، چا رپانچ ماہ بعد واپس آ چکے ہیں مگر یہاں اور امریکہ کے حالات کو دیکھنے کے بعدخوش دکھائی نہیں دیتے ۔وہاں ماحول کو مس کر رہے ہیں ۔دوسرے پڑوسی بٹ صاحب ہیں ۔ وہ میاں بیوی پچھلے چھ ماہ سے اپنے بچوں سے ملنے برطانیہ اور کینڈا میں ہیں ۔ اسی ماہ واپسی ہے ۔ فون پر چند روز قبل بات ہوئی تو بوجھل دل سے واپسی کا بتایا کہ اگلے ہفتے واپس آرہے ہیں۔ پوچھا کیا لائو ؟ کہا ان کی اچھی اچھی باتیں نوٹ کر کے لے آئیں تاکہ ہم اپنے کالم کے ذریعے شیئر کر سکے ۔ کہا نوٹ کرنے کی ضرورت نہیں ابھی آپ لکھ لو ۔ کہا یہاں ہر چیز خالص ملتی ہے ۔ کہا دروازے گھروں کے اکثر کھلے رہتے ہیں ۔ کسی کو گھر میں گھسنے کی جرات نہیں ۔ جو چیز کھاتے ہیں ،پیتے ہیں ۔اس کے بارے میں ہمیں یقین ہوتا ہے کہ کیا کھا رہے ہیں کیا پی رہے ہیں ؟ اس میں کوئی آمیزش نہیں ہوتی کوئی دو نمبری نہیں ہوتی۔یہاں کا عدالتی نظام اچھا ہے قانون کا بول بالا ہے ۔ یہاں ہر کوئی اپنے مذہب کے مطابق زندگی بسر کر سکتا ہے ۔ عید یا رمضان کے ماہ میں مسلمانوں کو اجتماعی عبادت کے لئے جگہیں درکار ہوتی ہیں ۔ اس موقع پر چرچ کے پادری مقدس جگہ کو خوشی خوشی استعمال کی اجازت دیتے ہیں ۔ مسلم اپنی عبادت ان کی عبادت گاہوں میں ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ مسلمان ایک جگہ عبادت کرتے دکھائی دیں گے ۔ جب کہ ایسا ہمیں اپنے ملک میں دکھائی نہیں دیتا۔ اب ہم وطن واپسی کا سوچ کر پریشان ہیں جہاں کوئی سیف نہیں ۔ جہاں وزیراعظم ،گورنر کا بیٹا اغوا کر لیا جاتا ، ایک ایس ایس پی کو ملک کے کیپیٹل سے اغوا کر کے پڑوسی ملک میں لے جا کر قتل کر دیا جاتا ہے۔ جہاں قانون کے رکھوالے محفوظ نہیں ۔ جہاں عدالتوں پر تالے ہیں جہاں اشیا خوردنی میں ملاوٹ ہے۔ جہاں حرام حلال میں فرق ختم ہو چکا ہے۔ جہاں ہر کوئی اپنا کام کرنے کے بجائے دوسرے کے کام میں ٹانگ اڑکاتا ہے ۔ گدھے گھوڑے کا گوشت کہلاتا ہے ۔کوئی انہیں پوچھنے والا نے ۔ اگر مٹی سے پیار نہ ہوتا تو واپس نہ جاتے۔ یہاں اسلام نہیں ہے مگر اسلام پر یہ لوگ عمل کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ ویلفیئر اسٹیٹ کا تصور اسلام کا دیا ہوا ہے ۔ اس پر یہاں پوری طرح عمل ہو رہا ہے ۔خوبیوں کی نہ ختم ہونے والی داستان سنا رہے تھے ۔ یہ سن میں نے کر کہا بٹ صاحب واپسی کا نہ آنے کا بہانہ نہیں چلے گا ۔ اس ملک کو باہر بیٹھ کر ٹھیک نہیں کیا جا سکتا ۔ یہاں اچھے لوگوں کی اشد ضرورت ہے ۔ہمیں بھی امریکہ برطانیہ میں جانے رہنے کا اتفاق ہوا ۔ جب سوچتا ہوں کہ اب اگر نئی لائف ملتی ہے ان ممالک میں جائوں گا نہیں ،اگر چلا گیا تو واپس نہیں آئوں گا ۔ ان ممالک میں رہنے کے بعد اپنے ملک میں رہنا مخمصہ ہے ۔ ٹریفک کو لے لیجئے ۔ آپ ڈرائیو کرتے ہوئے اپنی لائن میں رواں دواں ہیں ،سپیڈ کے مطابق دو گاڑیوں کا وقفہ رکھ کر چلا رہے ہیں ۔ اچانک بغیر انڈیکٹر لگائے کار لائین میں گھس آئے گی۔ موت دکھا کر زگ زیگ بناتا ہوا یہی حرکت دوسری جگہ بھی کرتا ہے ۔ کیونکہ وہ بے لگام ہے اسے کوئی پولیس کا پوچھنے والا نہیں ۔ شروع شروع میں تو ایسا ہونے پر کبھی کبھی کالا بکرا خیرات کر دیتا تھا ۔ جب ایسا روز کا معمول بناتو پھر بکرے سے کالی مرغی پر آ گیا ۔ خیرات دیتا کہ شکر ہے اﷲ نے جان بچا دی ، نقصان سے بچا دیا ۔ دنیا ساری میں پولیس ہائی ویز پر پٹرولنگ کرتی ہے جبکہ اسلام آباد ایکسپرس وے پر کوئی پولیس پڑولنگ کرتے دکھائی نہیں دیتی۔جبکہ یہ ملک کا کیپیٹل ہے ۔جہاں توقع کی جاتی ہے کہ مثالی پولیس ہو گی ۔کاغذوں پولیس ہے ۔کہاں ہے یہ کسی کو نہیں پتہ ۔ جس کی وجہ سے ہائی وے پر سلو مونگ ویکل روڈ کے دائیں ٹریک میں چلتے دکھائی دیتے ہیں موٹر بائک والے کرتب کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ یہ بائک والے اپنی جان سے کھیل رہے ہوتے ہیں ۔ نہ انہیں اپنی جان کی پرواہ اور نہ ہی دوسرے کی جان کی انہیں پرواہ ۔ پولیس کی تو انہیں پروہ ہی نہیں ۔پولیس ویسے بھی کئی دکھائی نہیں دیتی ۔ یہاں شر پسندوں کا ٹولہ ڈنڈوں کی مدد سے ہائی وے بلاک کر دیتا ہے ۔ پولیس دیکھ کر بھاگ جاتی ہے اگر یہ ان کے سامنے ڈٹ جائیں تو عوام ان کی مدد کر سکتے ہیں ۔لیکن ان کی ٹرینگ نہیں ۔ یہ سرعام گالیاں دیتے ہیں ۔ کوئی قانون حرکت میں نہیں آتا ۔ بلکہ ڈیل ہو جاتی ہے ۔ اسلام آباد ایکپسرس وے کو روات تک چھ لائینں بنانے کا نقشہ پاس ہو چکا ہے۔ جوں ہی حکومت بدلی اس ہائی وے پر گلبرک سے روات تک کا کام روک دیا گیا جس سے اس ہائی وے پر صبح شام اذیت ملتی ہے ۔ ٹریفک پولیس دنیا ساری میں ہر روز صبح اور شام یعنی سکول اور آفس ٹائم پر کمرشل ٹریفک کے گزرنے پر پابندی لگائی جاتی ہے ۔ اگر ایسا یہاں بھی کر دیا جائے تو عوام بھی سکھ کا سانس لیں ۔ دوسری طرف سی ڈی اے کو چاہیے کہ عوام کی مشکلات پر آنکھیں بند نہ کیا کریں ۔ کام کیا کریں ؟ اب تو فارن سے قرض بھی آ چکا ہے ۔ لہذا اپنی پہلی فرصت میں گلبرک سے روات تک سڑک کو چھ لائنوں میں پلیز بنا دیں۔ جب تک اس روڈ پر کام نہیں شروع کرتے اس پر ہیوی ٹریفک کو صبح و شام بند رکھا جائے۔ انٹرنس پر بورڈآویزاں کئے جائیں تاکہ روز مرہ کی ہیوی ٹریفک کا ٹائم اور فیول ضائع نہ ہو ۔ اب دنیا ساری میں چلے جائیں کبھی ایسا نہیں ہو گا کہ ریسٹورنٹ میں آرڈر آپ مٹن کا دیں اور آپ کو گدھے کا گوشت کھلا دے جب کہ یہاں ایسا ہو رہا ہے ۔ یہ گوشت کھانے والا یہ نہیں پوچھے گا کہ اس سے پہلے ایسا ذائقہ کبھی نہ تھا ۔ویسے کہا جاتا ہے کہ حرام کا برے کاموں کا اپنا ہی مزہ ہوتا ہے ۔ اس لئے کھا کر خوشی خوشی کہہ دیتے ہیں واہ مزہ ہی آ گیا۔ یہ سب کچھ ایسا اس لئے ہے کہ ہمیں حلال حرام میں تمیز نہیں ،عدالتی نظام ٹھیک نہیں، قانون لاغر ہے ۔ ڈیم سے زیادہ ہمارے عدالتی سسٹم کو ٹھیک کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ پتہ نہیں لکھتے ہوئے دل دماغ کہہ رہا ہے بھنیس کے آگے بین بجانا ہے ، کسی نے ان باتوں پر عمل نہیں کرنا لیکن یہ بھی …شائد کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

مزیدخبریں