مقبوضہ کشمیر میں 1989ء سے اب تک 11 ہزار خواتین کی بے حرمتی، 670 کو شہید کیا گیا، رپورٹ

Nov 26, 2019

جموں( آن لائن ) مقبوضہ کشمیرمیں کشمیر ی خواتین بھارتی فوجیوں اورپولیس اہلکاروںکی طرف سے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا شکار ہیں ۔ خواتین پر تشدد کے خاتمہ کے عالمی دن کے حوالے سے جاری کردہ ایک خصوصی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میںجنوری 1989ء سے اب تک بھارتی فوجیوں نے ایک ہزارسے زائد خواتین سمیت 95459افرادکو شہید کیا ۔بھارتی فوجیوںنے جنوری 2001سے اب تک کم سے کم670خواتین کو شہید کیا۔1989 میں علیحدگی پسندجدوجہد شروع ہونے کے بعد سے کشمیر میں خواتین کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ خواتین کے ساتھ زیادتی کی گئی ، تشدد کا نشانہ بنایا گیا ، معذور اور قتل کیا گیا۔ کشمیری خواتین دنیا میں بدترین جنسی تشدد کا شکار ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 9فیصد کشمیری خواتین جنسی استحصال کا شکار ہوئی ہیں۔ رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ 1989ء سے اب تک 22,905 خواتین بیوہ ہوئیںجبکہ بھارتی فوجیوںنے 11,140خواتین کی بے حرمتی کی جن میں کنن پوشپورہ میں اجتماعی زیادتی کا شکار ہونے والے خواتین بھی شامل ہیں۔بھارتی فوج کی چوتھی اجپوتانہ رائفلز کے جوانوں نے 23 فروری 1991 کو جموں و کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے ایک گاؤں کنن پوش پورہ میں سرچ آپریشن شروع کیا ۔جس کے بعد 23 خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ ہیومن رائٹس واچ سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق خواتین کی تعداد اس سے زیادہ ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ شوپیاں میں جنسی زیادتی کے بعد قتل کی جانے والی دو خواتین بھی اس میں شامل ہیں۔ایک نیوز ویب سائٹ القمر کے مطابق بھارتی پولیس کے اہلکاروں نے گزشتہ سال کٹھوعہ میں آٹھ سالہ بچی آصفہ بانو کو اغواء اور بے حرمتی کرنے کے بعد قتل کردیا تھا ۔ ساؤتھ ایشین وائر کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی فوج خواتین کی عصمت دری کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ پورٹ کے مطابق زیادتی کے بیشتر واقعات محاصرے اور تلاشی کے آپریشنز کے دوران پیش آئے ۔ ایچ آر ڈبلیو کی ایک اوررپورٹ کے مطابق ، کشمیر میں سکیورٹی اہلکاروں نے عصمت دری کو انسداد بغاوت کے حربے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ساؤتھ ایشین وائر کی رپورٹ میں ایک اسکالر انجر سکجلس بائیک کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ کشمیر میں عصمت دری کا انداز یہ ہے کہ جب فوجی سویلین رہائش گاہوں میں داخل ہوتے ہیں تو وہ عورتوں سے زیادتی سے قبل مردوں کو مار ڈال دیتے ہیں یا بے دخل کردیتے ہیں۔ ایک اور اسکالر شبھ متھور نے عصمت دری کو "کشمیر میں بھارتی فوجی حکمت عملی کا ایک لازمی عنصر" قرار دیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں پیر کو مسلسل113 ویں روز بھی بھارتی فوجی محاصرے کی وجہ سے وادی کشمیر اور جموں کے مختلف علاقوں میں معمولات زندگی مفلوج ہیں۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق علاقے میں بھارتی فورسز کی بھاری تعداد تعینات ہے اور دفعہ 144کے تحت سخت پابندیاںنافذ ہیں۔ وادی کشمیر میں انٹرنیٹ ، ایس ایم ایس اور پری پیڈ موبائل فون سروسز بدستور معطل ہیں۔ بھارت کے کشمیر دشمن اقدامات کے خلاف اپنے غم وغصے کا اظہار کرنے کے لیے وادی کشمیر کے عوام نے خاموش احتجاج کے طورپر اپنی دکانیں اورکاروباری ادارے بند رکھے ہوئے ہیں اورسرکاری دفاتر اور تعلیمی ادارے ویرانی کا منظر پیش کررہے ہیں جبکہ سڑکوں سے پبلک ٹرانسپورٹ غائب ہے۔بھارتی پولیس نے سرینگر سے درجنوں افراد کوگرفتارکرنے کا دعویٰ کیاہے۔ کشمیر کی صورتحال پر نظررکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ ان گرفتاریوں کا مقصد یہ تاثر دیناہے کہ لوگ خود سے احتجاج نہیں کررہے بلکہ چند شرپسندعناصر ان کو ایسا کرنے پر مجبور کررہے ہیں ۔ بھارتی پولیس نے سرینگر سے بشیر احمد قریشی کو بالخصوص صورہ کے علاقے آنچار میںبھارت مخالف احتجاجی مظاہرے کرانے کے الزام میں گرفتارکیا ہے۔

مزیدخبریں