بچوں کے وزیر اعظم 

عام طور پر طلبہ کو اتوار کی چھٹی کا انتظار رہتا ہے۔جب وہ پورے ہفتے کی تھکا دینے والی روٹین سے ہٹ کر تفریح کے مواقع تلاش کریں۔ ایک دن کی موج مستی کے بعد سوموار کا دن عمومی طور پر کچھ زیادہ پسند نہیں کیا جاتا کیونکہ پھر سے انھی شب و روز کا آغاز ہو جاتا ہے۔ لیکن گذشتہ اتوار کو طلبہ بے چینی سے سوموار کا انتظار کر رہے تھے۔ وفاقی حکومت نے کرونا وبا کی دوسری لہر کے پیش نظر تعلیمی اداروں میں تعطیلات ہونے نہ ہونے کا اعلان کرنا تھا۔ جیسے ہی شفقت محمود صاحب نے 26 نومبر سے 10 جنوری 2021 تک تعلیمی ادارے بند کرنے کا اعلان کیا تو پورے سوشل میڈیا پر صرف شفقت محمود ہی نظر آنے لگے۔ ایسا لگا اگر اس وقت ملک کاکوئی پاپولر لیڈر ہے تو وہ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود ہیں جنھیں بچہ بچہ جانتا ہے۔ فیس بک اور ٹوئٹر پر ان کے حق میں اسٹوڈنٹس نے نعرے اور نہایت دلچسپ پوسٹ لگائیں۔ مجھے سب سے دلچسپ جو پوسٹ لگی وہ ان کی ایک تصویر پر کیپشن تھا جس پر لکھا تھا "بچوں کے وزیر اعظم"۔ اس فیصلے کے دیگر پہلوؤں پر غور سے پہلے مجھے طلبہ کے رسپانس میں دو چیزیں نظر آئیں۔ سب سے پہلے تو موجودہ تعلیمی نظام سے بے زاری اور دوسرا طلبہ میں یہ صلاحیت ہی نہیں پیدا کی گئی کہ وہ اپنے مستقبل سے متعلق کئے جانیوالے فیصلوں پر شعوری انداز میں سوچیں اور رد عمل دے سکیں۔ اس پر مزید مہر تصدیق صدر پاکستان عارف علوی نے یہ ٹویٹ کر کے کر دی کہ بھئی پاکستان خوش باش لوگوں کا ملک ہے اور اسکول کالج بند ہونے سے بچے بڑے خوش ہیں ،اللہ نظر بد سے بچائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک اس وقت سخت مسائل سے دوچار ہے۔  ایک طرف آئی ایم ایف مزید قرض کیلئے شرائط کے مطابق ٹیکسز بڑھانے اور بجلی مزید مہنگی کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ تو دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں نے سیاسی محاذ گرم رکھ ہے۔ پی ڈی ایم اتحاد ہر صورت حکومت کو گھر بھیجنے کے مطالبے پر تْلا ہوا ہے۔ خارجی محاذ پر بھارت کے ساتھ شمالی بارڑ پر خصوصی اور افغاانستان کے ساتھ مغربی بارڈر پر کم امکان کے ساتھ کسی وقت بھی جنگی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے۔ سی پیک پر چین پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ تاحال سی بی ایم پر ہی کام کر رہا ہے۔ دوست نما دشمنوں نے ایف اے ٹی ایف کی تلوار الگ پاکستان پر لٹکا رکھی ہے۔ امریکی ایما پر مشرق وسطیٰ میں پاکستان کے پرانے دوستوں کی جانب اسرائیل کے بڑھتے ہوئے قدم ہماری خارجہ پالیسی پر دباؤ بڑھا رہے ہیں۔ اس ضمن میں وزیر اعظم عمران خان واضح پالیسی بیان دے چکے ہیں کہ اگر ہم نے اسرائیل کو تسلیم کیا تو کشمیر کا مقدمہ ہار جائینگے۔ ان سارے سخت حالات کے باوجود بھی کرونا کے باعث اگر سب سے آخر میں کچھ بند کرنے کا آپشن ہوتا تو وہ تعلیمی ادارے ہونے چاہئیں تھے۔  جو ایس او پیز حکومت انڈسٹری اور مارکیٹوں کیلئے دے رہی ہے اسے سکولوں پر بھی لاگو کر کے کھلے رکھتے۔ حیرت انگیز طور پرکرونا کی شرح پاکستان میں 10 سال سے کم عمر بچوں میں 0.3 فیصد اور 20 سال کم عمر نوجوانوں میں 0.5 رہی ہے۔ یعنی سکول اور کالجز کے طلبہ سب سے کم کورونا متاثرین ہیں لیکن ہم نے پھر بھی سب سے پہلے انھیں بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق دو کروڑ 61 لاکھ بچے نجی اور دو کروڑ 19 لاکھ بچے پبلک سکولوں میں پڑھ رہے تھے۔ نجی سکولوں میں پڑھنے والے بچوں میں سے ایک کروڑ 30 لاکھ بچے سکول واپس نہیں آئے اور ایک اندازے کے مطابق اتنے ہی بچے سرکاری اسکولوں میں واپس نہیں آئے ۔ لگ بھگ ڈھائی کرو ڑ بچے یعنی یہ تاریخ کا سب سے بڑا ڈراپ آؤٹ ہے۔ کارکردگی کے اعتبار سے تعلیمی سال تقریباً برباد ۔ تعلیمی اداروں کے 15 لاکھ اساتذہ میں سے سات لاکھ اساتذہ تعلیمی اداروں میں واپس نہیں آسکے، نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔تعلیمی انڈسٹری ملکی معیشت میں 500 ارب کا حصہ ڈالتی تھی۔ جو اس فیصلے کے بعد وینٹی لیٹر پر جا چکی ہے۔ البتہ بڑی اسکول چینزفائدے میں رہیں اور بے چارے والدین رل گئے۔ جلسے اور شادیا ںہو سکتی ہیں تو سکول بھی کھلے رکھے جا سکتے تھے لیکن کیایہ کم خوشی کی بات ہے کہ بچوں نے شفقت محمود کو اپنا علامتی وزیر اعظم چن لیا ہے۔ 

ملک عاصم ڈوگر  …منقلب 

ای پیپر دی نیشن