دنیا کے بعض ترقی پذیر ممالک میں جہاں سرکاری یا نیم سرکاری تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبہ بنیادی سہولتوں سے ہنوز محروم ہیں اپنے ہی اساتذہ کے زیر عتاب ہیں ان ممالک میں ایسے سکولوں کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جہاں بچوں کو بطور سزا تھپڑ رسید کرنا انکے جسم پر چھڑی کا بہیمانہ استعمال یا پھر ’’مرغا‘‘ بنا کر کلاس کے سامنے انہیں کان پکڑنے پر مجبور کرتے ہوئے ان کی عزت نفس کو مجروح کرنا روزمرہ معمول کا حصہ تصور کیا جاتا ہے۔ کلاس میں دوران Lesson گفتگو‘ معمولی شرارت‘ سبق یاد نہ کرنے پر یا پھر ہوم ورک میں کوتاہی برتنے والے ایسے طلبہ پر اساتذہ کے کئے Third Degree Mathod کو ہمارے وطن عزیز کے بیشتر دیہی سکولوں میں آج بھی دیکھا جا سکتا ہے جبکہ انہی علاقوں میں قائم پرائیویٹ سکولوں میں زیر تعلیم طلبہ کو تھپڑ مارنا‘ ان پر چھڑی سے تشدد کرنا یا ان کی عزت نفس کو مجروح کرنا ایک وحشیانہ عمل قرار دیا جا چکا ہے۔ اس دوہرے مگر تکلیف دہ معیار کے بنیادی عوامل کا اگر عمیق نظری سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات بھی صاف عیاں ہے کہ جس طرح آزادی کے 76 برس گزرنے کے باوجود ہماری قومی نشریات کے مقابلے میں بی بی سی نیوز اور اس کی عالمی نشریات کو آج بھی زیادہ Authenticated اور بونافائیڈ تصور کیا جاتا ہے بالکل اسی طرح سرکاری سکولوں کے مقابلے میں پرائیویٹ سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کو زیادہ ذہین‘ باخبر‘ لائق‘ بہترین انگریزی لکھتے اور انگریزی ’’فر فر‘‘ بولنے والا سمجھا جاتا ہے۔
اسے کہتے ہیں Inferiority Complex گاڑی میں سکول جانیوالے اور ڈرائیور سے اپنا بھاری بھرکم ’’بستہ‘‘ اٹھوانے والے طالب علم کیلئے یہ ضروری نہیں کہ مستقبل میں اپنی تعلیم کے بل بوتے پر حاصل کی گئی ان آرام دہ سہولتوں سے وہ دکھی انسانیت کی خدمت اور ملک و قوم کے بنیادی مسائل کے موثر حل کا بیڑہ اٹھاتے ہوئے ادراک بھی کر پائے دنیا کی جن بڑی سیاسی‘ سماجی اور عوامی شخصیات کو تاریخ کے اوراق نے اپنے اندر سمیٹا ان میں زیادہ تر تعداد غریب‘ نادار‘ سہولتوں سے محروم اور ’’ریلوے اسٹیشنوں‘‘ کی روشنیوں میں پڑھنے والے طلبہ تھے جن کے نام ان کے کارناموں کی بدولت آج بھی زندہ ہیں۔ دیہی یا شہری سرکاری سکولوں میں اساتذہ کے ہاتھوں بچے کا پٹنا بظاہر ایک ظالمانہ فعل دکھائی دیتا ہے مگر بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ استاد کی اس سختی کے پس پردہ درحقیقت اس کے وہ جذبات بھی شامل ہوتے ہیں جن سے اپنے ایک شاگرد کو وہ مستقبل کا بڑا آدمی بنتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے۔
شہر اقبالؒ کی جس مسیحی درسگاہ میں کنڈرگارٹن اور اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کی اسے سی ٹی آئی ہائی سکول کے نام سے جانا اور دنیا بھر میں پہچانا جاتا ہے۔ 1888 میں اس سکول کی عمارت کا قیام عمل میں آیا۔ آنجہانی لال موتی لال صاحب اور آنجہانی آر این مل صاحب سمیت آنجہانی نہال چند صاحب‘ مرحوم مبارک صاحب‘ مرحوم طفیل صاحب‘ مرحوم برکت مل صاحب‘ مرحوم یعقوب صاحب‘ مرحوم عبدالغنی صاحب‘ مرحوم رشید صاحب‘ مرحوم بشیر صاحب‘ مرحوم اقبال صاحب‘ مرحومہ مسز الماس صاحبہ اور ملک کے معروف مسیحی شاعر مرحوم کے آر ضیاء صاحب کا شمار میرے ان انتہائی مشفق اساتذہ میں ہوتا ہے جن کی وجہ سے آج اس مقام پر ہوں۔ مجھے چونکہ باسکٹ بال بھی کھیلنا ہوتا تھا اس لئے اپنے دیگر دوستوں ناصر‘ نصیر‘ رضا اور سلوینس کے مقابلے میں ہوم ورک میں مجھ سے اکثر کوتاہی ہو جاتی جو آنجہانی ماسٹر یعقوب صاحب اور مرحوم ماسٹر مبارک صاحب کو اکثر گراں گزرتی چنانچہ ماسٹر یعقوب خان کی بے دریغ استعمال کی جانے والی چھڑی سے میرا بچنا بعض اوقات محال ہو جاتا۔ آج وہ گزرے دن جب یاد آتے ہیں تو کئی بار خود ہی مسکرانے لگتا ہوں۔ مذکورہ بالا دوستوں سے جو بڑے افسران بننے کے بعد اب Senior Citizen کا اضافی اعزاز بھی حاصل کر چکے ہیں۔ گزرے دنوں کی جب بھی بات ہوتی ہے تو اساتذہ کرام کے ذکر پر احتراماً وہ اپنا سر جھکا لیتے ہیں۔ اپنی نالائقی کا یہ خاکہ کھینچنے کی ضرورت آج اس لئے محسوس ہوئی تا کہ دور حاضر کے اساتذہ اور والدین کی شدت سے بدلتی سوچوں کے بارے میں آپ کو بھی آگاہ کر سکوں۔
انگلستان میں بھی ایک دور تھا جب اساتذہ بچوں پر ہلکا پھلکا تشدد کرنے میں آزاد تھے بچے کو سزا دینے کیلئے جسم کے ایسے مخصوص حصے کا انتخاب کیا جاتا جہاں تھپڑ یا چھڑی سے لگائی ضرب زیادہ تکلیف دہ ثابت نہ ہوتی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سکولوں میں بچوں کومارنے پیٹنے کے خلاف قانون متعارف کروا دیا گیا اور یوں بچوں کے دلوں سے مارکے خوف کا ہمیشہ کیلئے تو خاتمہ کر دیا گیا مگر والدین کی جانب سے بچوں کو تھپڑ مارنے کی اجازت برقرار رہی جو اب بھی برقرار ہے۔ تاہم سکاٹ لینڈ میں بچوں کو تھپڑ مارنے کو اب غیر قانونی قرار دے دیا گیا ہے۔
بچوں کے تحفظ کے حوالہ سے گزشتہ برس سکاٹش پارلیمنٹ میں پیش کئے گئے بل کو تو اگلے روز منظور کر لیا گیا مگر برطانیہ کے مختلف حصوں میں بچوں کو تھپڑ مارنے کی اب بھی اجازت ہو گی۔ بل کے مطابق 16 سال سے کم عمر کے بچوں کو تھپڑ مارنے پر پابندی عائد کی گئی ہے جبکہ جسمانی سزا کی صورت میں والدین کو اب قانونی کارروائی کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ سکاٹ لینڈ میں ہی اس قانون کی مخالفت بھی کی جا رہی ہے اس قانون کے خلاف مہم چلانے والی تنظیم اسے ایک خوفناک قانون قرار دے رہی ہے۔
سکاٹ لینڈ میں متعارف کرائے گئے اس قانون کے بعد انگلستان میں بھی یہ توقع کی جا رہی ہے کہ انگلستان میں بھی 16 برس سے کم عمر کے بچوں کو تھپڑ مارنے پر پابندی عائد کر دی جائے گی مگر میں اب اس سوچ میں ہوں کہ پاکستان میں بھی اس طرح کا قانون کیوں متعارف نہیں کروایا جا سکتا۔ والدین کی برہمی‘ سکولوں میں اساتذہ کا غصہ تو سمجھ میں آتا ہے مگر عدالتوں کے اندر‘ کچہریوں‘ بسوں کے اڈوں‘ پولیس اسٹیشنوں اور جیل خانوں میں سزا کاٹنے والے قیدیوں پر ’’تھپڑ‘‘ کے جو منفی اثرات مرثب ہو رہے ہیں وہ قومی اور ملکی سطح پر کوئی نیک شگون نہیں… تھپڑ کا جذبہ کیا اتنا ہی منہ زور ہو گیا ہے۔