دیوانہ مر گیا آخر کو ویرانوں پہ کیا گذری 

Nov 26, 2020

مظہر علی خان لاشاری

زندگی آخر ایک دن موت کی آغوش میں جا کر چلتے پھرتے ہنستے مسکراتے انسان کو مردہ بنا دیتی ہے ۔ ہم جو دن رات زندگی کی بقا کے لیے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے رہتے ہیں ۔ دولت اور شہرت کی ہوس ہمیں پاگل کئے ہوئے ہے کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ایک دن ہمارا نام بھی نہ ہو گا اور ہم ایک گمنام قبر میں پڑے ہونگے انسان کی یہ بڑی آرزو ہوتی ہے کہ وہ اِس فانی دنیا میں ہمیشہ طاقت ور اور بڑا بن کر جیئے لیکن یہ اُس کی خام خیالی ہے بھلا جس نے مر کر فنا ہونا ہے اور مٹی میں جا کرمٹی ہو جانا ہے وہ کیسے طاقت ور رہ سکتا ہے ہاں ایک طریقہ یہ ضرور ہے کہ انسان اللہ اور اُس کے محبوب حضرت محمد ﷺ کی خاطر جینا شروع کر دے اور اپنا سب کچھ اللہ اور اُس کے محبوب حضرت محمد ﷺ کی عزت اور نا موس پر قربان کر دے جیسے اٹک کے ایک عام سے مولوی علامہ خادم حسین رضوی نے کیا اور ایسے خلوص کے ساتھ کیا کہ مرنے کے بعد لاکھوں لوگوں نے اُس دیوانے کے جنازے میں شرکت کر کے دنیا کو دیکھا دیا کہ جو حضور اقدس ؐ کے سچے عاشق ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ اُن کو ایسا مقام عطا کر دیتا ہے کہ جو مقام بڑے بڑے بادشاہوں کے نصیب میں بھی نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ کو اپنے محبوب سے بڑی محبت ہے اور پھر جو اُس کے محبوب ؐسے محبت کرتا ہے تو بس یہی ایک ادا تھی جس نے مولانا خادم حسین کو فرش سے عرش تک پہنچا دیا وگرنہ مولانا خادم حسین سے بڑے حلقے اُن کی سخت زبان کی وجہ سے ناراض رہتے تھے لیکن یہی ایک ادا تھی کہ خادم حسین رضوی کہ جو حضور اقدس ؐ کی ناموس کے لیے مر مٹا اور ایسی مجاہدانہ ضرب لگائی کہ کفر کے ایوانوں میں لرزہ برپا کر دیا علامہ خادم حسین رضوی ایک مسلک کی نمائندگی کرتے تھے وہ بڑے بڑوں کو گالیاں دیا کرتا تھا اس لیے کہ وہ دیوانہ تھا اپنوں کو اِس لیے للکارتا تھا کہ وہ غیروں کے آلہ کار بن رہے ہیں اور وہ صرف یہی چاہتا تھا کہ میرے آقا جناب رسالت ما ٓبؐ کی نا موس پر حملہ کرنے والوں کو اِس دھرتی پر جینے کا کوئی حق نہیں ہے معذور ہونے کے باوجود بھی اُس نے ایسا کارنامہ سر انجام دیا کہ جو بڑے طاقت ور لوگ بھی سر انجام نہ دے سکے اُن کا ایک ہی مشن تھا اور ایک ہی نعرہ تھا کہ کا لی کملی والے کی عزت پر حملہ ہو اور ہم کچھ نہ کر سکیں ۔ تو پھر ہمارے جینے کا کوئی فائدہ نہیں چار کامیاب دھرنوں کے بعد آخر کامیاب دھرنا بھی فیض آباد راولپنڈی میں دیا جوش اور ایمانی جذبے کے ساتھ اپنوں اور غیروں کو للکارتے رہے کہ ۔ 
؎روزہ اچھا نماز اچھی حج اچھا زکوٰۃ اچھی 
مگر میں باوجود اِسکے مسلمان ہو نہیں سکتا 
کہ جب تک نہ کٹ مروں میں خواجہ یثربؐ کی عزت پر 
خدا شاہد ہے کامل میرا یمان ہو نہیں سکتا 
مولانا ظفر علی خان کی زبانی خادم حسین رضوی نے 1935ئ؁ کی اُس تحریک کی یاد تازہ کرا دی تھی کہ جب لاہور کے مسلمانوں نے سکھوں سے مسجد شہید گنج آزاد کرانے کی تحریک چلائی تھی اُس زمانہ میں سینکڑوں مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا ۔
یہ وہی تحریک تھی کہ جس نے اُردو زبان کو عبدالکریم الفت سے آغاشورش کاشمیری جیسا خطیب ملا کہ جو اپنے عشق رسول ؐ اور اپنی خطابت میں اپنا ایک الگ مقام رکھتے ہیں مولانا خادم حسین بھی پچاس سال کی عمر تک لاہور کی مکی مسجد میں امامت اور خطابت کرتے رہے ہیں لیکن آخری پانچ سالوں میں وہ حضور اقدس ؐ کی عظمت اور ناموس کا پرچم لے کر اُٹھے اور یہ ثابت کر دیا کہ ’’عاشق جاندے اگے ہو ‘‘ ۔
چونکہ اُن کے اندر درد اور خلوص تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کی عزت اور عظمت کا پرچم ایک معذور کو دے دیا کہ جس نے اپنی تحریک اور دھرنے کے ذریعے اپنی ہر بات حکومت وقت سے منوائی اُن کی اپنی بات ہو ہی کیا سکتی تھی اُن کی تو صرف یہی بات ہوتی کہ ہمارے آقا اور پوری اُمت کے محبوب حضرت محمد ﷺ کی ناموس پر حملہ کرنے والوں کو عبرت ناک سزا دی جائے امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاری ؒ فرمایا کرتے تھے کہ ہمارا سب کچھ میاں جی یعنی حضور اقدس ﷺ کے لیے ہے اور جو میرے نا ناکی ختم نبوت کا انکار کرتا ہے وہ میرا سب سے بڑا ازلی دشمن ہے مولانا خادم حسین رضوی نے جب اپنا سب کچھ حضور اقدس ؐ کی محبت پرقربان کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی اُس شخص کو مرنے کے بعد بھی ایسی عزت دے دی کہ لاکھوں مسلمانوں نے اُن کے جنازے میں شرکت کر کے ایک اور غازی علم دین کے جنازے کی یاد تازہ کر دی ۔ 
؎غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی 
دیوانہ مر گیا آخر کو ویرانوں پہ  کیا گذری 
٭…٭…٭

مزیدخبریں