(گزشتہ سے پیوستہ)ہوٹل کے ریسیپشنسٹ نے بتایا کہ ہوٹل سے نکل کر بائیں جانب ٹوپ کاپی اور صوفیہ، دس منٹ کی واک پر ہیں۔اب تک ہم جب بھی باہر نکلے تو دائیں جانب جاتے رہے وہا ں سے بس، ٹرام یا ٹیکسی تقریباً ڈیڑھ کلو میٹر پر ملتے تھے۔ہوٹل کے سامنے سے ٹرامیں دونوں رخ پر جاتی نظر آتی تھیں لیکن اسٹاپ ڈیڑھ کلو میٹر پر تھا اس لیے بہت چلنا پڑتا تھا۔ جس کی وجہ سے گھٹنے جواب دے رہے تھے۔ہم باہر نکلے اور چند میٹر کے بعد پہلے موڑ پر ٹرام کا اسٹاپ دیکھ کر ہماری جو حالت ہوئی نا قابل بیان ہے۔اگر یہ پہلے دن دیکھ لیتے تو اس تکلیف میں نہ پڑتے۔اپنے آپ کو کوستے ہوئے چند میٹر اور آگے گئے تو پارک کا گیٹ نظر آیا جس سے گزر کر ٹوپ کاپی پہنچا جاسکتا ہے۔گھٹنے میں تکلیف ہورہی تھی اور ہم گھسٹتے یا رینگتے ہوئے بڑھ رہے تھے کہ ایک گالف نما گاڑی آکر قریب رکی اور ڈرائیور نے بیٹھے کا اشارہ کیا۔اس گاڑی پر لکھا تھا ’’ٹاپ کاپی کے لیے فری سروس۔‘‘۔اس نے ٹاپ کاپی سے چند میٹر دور اتار دیا۔یہاں معلوم ہوا کہ ۰۳ لیرا کا ٹکٹ لینا ہوگا۔ٹکٹ گھر پر لمبی قطار تھی‘چلنا تو دور کی بات کھڑا بھی نہیں ہوا جارہا تھا۔ابھی تذبذب میں تھے کہ دو روز پہلے ملنے والے نائیجیرین کا وفد مل گیا۔ ان کے گائڈ نے ہم سے پوچھا کہ اگر ٹکٹ نہیں لیا تو اس سے ۰۳ لیرا ہی میںٹکٹ لیا جا سکتا ہے۔قطار کی زحمت سے بھی بچ جائو گے۔یہ سن کر خوشی ہوئی اور ہم ٹکٹ لے کر اندر داخل ہوگئے۔درد بہت بڑھ گیا تھا اور ہماری خواہش صرف حضورپاکﷺ اور حضرت عثمانؓ کے قرآن،جس پرآپؓ کے خون کے دھبے ہیں، کو دیکھنے کی رہ گئی مگر اللہ کو کچھ اور منظور تھا اس لیئے ہم اندر داخل ہو کر دائیں مڑ گئے۔چھوٹے چھوٹے کمروں میں نوادرات دیکھتے ہوئے دو گھنٹے تک گھسٹتے رہے۔اتنے میں ایک انگریزی سے واقف خاتون سے ملاقات ہو گئی۔ اس نے بتایا کہ اگلے تین کمروں کے بعد ہماری خواہش پوری ہو سکتی ہے۔سن کر خوشی ہوئی کیونکہ یہ خوف بھی دامن گیر تھا کہ کہیں یہ متبرک اشیاء ہٹا نہ دی گئی ہوں۔مصر میں یہ ہی ہوا تھا۔قاہرہ کے میوزیم میں ہزاروں چیزیں تھیں لیکن فرعون کی ممی کو اس لیئے ہٹا دیا تھا کہ اس کی (لاحول ولاقوۃ اللہ باللہ) بے حرمتی ہو تی ہے۔اب وہ صرف بڑے لوگوں (حکمرانوں کو ہی دکھائی جاتی ہے)۔خیر اب منزل قریب تھی گھسٹ گھسٹ کر جلدی جلدی ان دو تین کمروں کی سیر کی جس میں بادشاہوں کی زرہ بکتر، تلواریں اور دیگر اشیاء رکھی تھیں۔وہا ںسے نکلے تو ایک مقام پر لمبی قطار دیکھی۔یہ ہی ہماری منزل مقصود تھی۔وہا ں انگریزی میں لکھا تھا’’متبرک اشیائ‘‘۔یہاں ہم نے اپنی بزرگی کا سہارالیتے ہوئے درمیان میں گھسنے کی جسارت کر ڈالی جس پر کوئی بھی معترض نہیں ہوا۔تھوڑی دیر میں دو خواتین قطار کی جانب آئیں۔انکے ہاتھوں میں گلابی رنک کے دوپٹے نما اسکارف تھے۔ہم سمجھے بیچ رہی ہیں لیکن معلوم ہوا کہ ننگے سروں والی خواتین کورعایتاً دی جارہی ہیں تاکہ داخل ہونے سے پہلے سر ڈھانپ سکیں۔رش بہت تھا۔چند منٹوں بعداندر داخل ہونے کا اشارہ ملا اور ہم داخل ہوگئے۔اندر کا ماحول بڑا پاکیزہ تھا۔ تلاوت کی آواز گونج رہی تھی۔ آگے بڑھے تو دیکھا ایک مولانا تلاوت کر رہے ہیں۔ہم پہلے سمجھے تھے کہ ریکارڈنگ ہے لیکن یہاں مولانا تلاوت کر رہے تھے۔ابھی قطار آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی کہ اچانک ایک سیکیوریٹی گارڈ نمودار ہوا اور ہمارا ہاتھ پکڑ لیا۔پھر اس نے ہمیں قطار سے نکال کر پہلے کمرے میں پہنچا دیا۔وہاں بزرگان دین کی تلواریں رکھی تھیں۔پھر اس گارڈ نے ہمیں حضرت موسیٰ ؑ کے عصا کے سامنے لا کھڑا کیا۔عصا دیکھ کر ہمارے نہ جانے کیوں رونگٹے کھڑے ہو گئے۔پھر ہم نے حضور ﷺکے قدم شریف دیکھے۔گارڈ نے اشارے سے دعا مانگنے کے لیئے کہا اور پھر ہمیں دوسرے کمرے میں لے گیا وہاں حضرت علیؓ کی تلوار اور بی بی فاطمہؓ کا لباس دکھایا۔ پھر حضور ﷺکے موئے مبارک دکھا ئے جو بہت ہی چھوٹے چھوٹے تین شیشوں میں تھے جبکہ پاکستان میں اکثر پیر صاحبان لمبے لمبے بالوں کو آپﷺ سے منسوب کرکے دکھانے کا اہتمام کرتے ہیں۔جو نہ جانے ان کو کہاں سے ملے ہیں۔اس کے بعد گارڈ نے ہمیں لے جا کر حضرت عثمان ؓ کے اس قرآن کے سامنے کھڑا کر دیا جس کی تلاوت کے دوران آپؓ کو شہید کیا گیا تھا۔آپؓ کے خون کے دھبے قرآن شریف پر موجود ہیں۔ہماری استنبول آنے کی یہ خواہش پوری ہوئی لیکن پیروں میں تکلیف بڑھ جانے کی وجہ سے بلو موسک اور صوفیہ کا پروگرام منسوخ کرتے ہوئے واپسی کا ارادہ کیا کیونکہ یہاں سے ہوٹل عام یا صحت مند آدمی کے لیئے دس منٹ کی واک کی دوری پر تھا۔ہم جب باہر نکلنے کے لیئے گیٹ پر پہنچے تو معلوم ہوا اگر ہم اندر داخل ہونے کے بعد بائیں مڑ جاتے تو یہ متبرک کمرے پہلے مل جاتے اور ہم وہا ں سے فوراً واپس ہو سکتے تھے اور تکلیف سے بچ جاتے لیکن اللہ تعالیٰ بہتر پلانر ہیں۔پورا ٹاپ کاپی دکھا دیا۔ہوٹل واپس پہنچے اور بلو موسک (Blue Mosque)اور صوفیہ کا ارادہ منسوخ کردیا کہ پیروں میں چلنے کی بالکل سکت نہ تھی۔ اس لیئے آرام کرنے کے لیئے لیٹ گئے۔شام کو اٹھے تو کچھ افاقہ لگا توسوچا نکلتے ہیں اور صرف ٹرام میں بیٹھ کر پورے استنبول کا چکر لگا کر واپس آجائیں گے کیونکہ صبح چار بجے ایئر پورٹ پہنچنا تھا ڈبلن کے لیئے۔ہم ٹرام میں بیٹھے ابھی ایک اسٹاپ ہی گزرا تو ہمیں بلو ماسک نظر آئی ہم نے برابر بیٹھے ترک سے پوچھا کیا یہ بلکو ماسک ہے تو اسنے کندھے اچکا دیئے۔ایک سیاہ فام نے بتایا کہ ہاں یہ بلو ماسک ہے آپ یہاں اتر سکتے ہیں لیکن ٹرام چل چکی تھی۔ ہم اگلے اسٹاپ پر اترے اور دوسری ٹرام سے وہیں پہنچے۔مغرب کی اذان ہو رہی تھی‘بلو ماسک تقریباً دو ڈھائی سو میٹر پر تھی لیکن ٹرام اسٹاپ کے ساتھ ایک بڑی مسجد تھی جس سے اذان ہو رہی تھی ہم نے جلدی سے اندر داخل ہو کر نماز با جماعت کی سعادت حاصل کی اور پھر بلو ماسک پہنچے جسے سلطان الاحمت یا الاحمد بھی کہتے ہیں۔وہاں چند تصویریں لیں۔دوسری طرف چند میٹر پر الصوفیہ ہے یہ پہلے چرچ تھا پھرمسجد بنا پھرمیوزم اور اب دوبارہ مسجد ہے۔اس طرح اللہ نے ہماری استنبول میں جن چیزوں کے دیکھنے کی خواہش تھی، پوری کردی۔یہ اور بات کہ ترکی زبان نہ آنے کی وجہ سے جو مشکلات آڑے آئیں اس پر یہ ہی کہہ سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زبان یار من ترکی کہ من ترکی نمی دانم۔۔۔۔ ترکی کا کیا رونا ہمیں توفارسی بھی اتنی ہی آتی ہے کہ پاکستان میں ایک فارسی داں نے پکوڑے تلتے دیکھ کر پوچھا’’این چی چیز است‘‘۔۔۔جواب تھا ’۔۔’ایں پکوڑا است‘‘۔۔۔اس نے وضاحت چاہی۔۔’’چی می گوئی‘‘۔۔جواب دیا۔’’تیل میں ڈبوئی‘‘۔۔اور بات آئی، گئی ہوئی کیونکہ دونوں انگریزی بولنے لگے لیکن یہ سہولت ترکی میں نہیں ملی۔بہر حال صبح ہم ایک ایسے ملک جا رہے ہیں جہاں زبان یار انگریزی ہے۔۔اورہم انگریزی سے نابلد بھی نہیں۔