کراچی(نیوز رپورٹر)چیئرپرسن پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرزاور صدرعورت فائونڈیشن ڈاکٹر معصومہ حسن نے کہا کہ عورتوں پر دنیا بھر میں تشدد ہوتاہے اور بالخصوص لاطینی امریکہ کے کچھ ممالک جہاں خواتین کا قتل ہونا عام سی بات ہے اور وہاں پر خواتین اپنے آپ کو زیادہ غیر محفوظ سمجھتی ہیں۔عورتوں اور بچوں کے ریپ اور قتل میں اکثر اس کے رشتہ دار یا محلے والے ملوث پائے جاتے ہیں ۔پاکستان میں ہرسال ایک ہزار خواتین کو غیر ت کے نام پر اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑتاہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے سینٹر آف ایکسلینس فارویمنز اسٹڈیز جامعہ کراچی کے زیراہتمام اوریونائیٹڈ نیشنز ویمنز کے اشتراک سے کلیہ فنون وسماجی علوم جامعہ کراچی کی سماعت گاہ میں منعقدہ ایک روزہ کانفرنس بعنوان: ’’پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد: وجوہات اوررجحانات کو سمجھنا‘‘ کی افتتاحی تقریب سے کلیدی خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ڈاکٹر معصومہ حسن نے مزید کہا کہ عورت فائونڈیشن 1986 ء سے خواتین کے حقوق اور انہیں بااختیار بنانے کے لئے کام کررہی ہیں ۔معاشرے میں بڑھتے ہوئے جرائم اور تشدد کی روک تھام کے لئے حکومت کے ساتھ ساتھ ہم سب کو اپنا کردار اداکرنا چاہیئے۔تشدد اور ہراسانی کے واقعات کے سد باب اور روک تھام کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس کے خلاف آوازاُٹھائیں اور اس کو رپورٹ کریں۔جو کیسز رپورٹ ہوتے ہیں یا منظر عام پر آتے ہیں وہ دریا میں قطرے کی مانند ہیں۔انہوں نے اس اہم موضوع پر کانفرنس کے انعقاد پر سینٹر ہذا اور کانفرنس کی آرگنائزنگ سیکریٹری ڈاکٹر علیہ علی بلگرامی کو خراج تحسین پیش کیا۔ اس موقع پر جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے کہا کہ صنفی امتیاز کے خاتمے اور یکساں حقوق کی فراہمی سے ہی پسماندگی کا خاتمہ ممکن ہے، ملک کی نصف سے زائد آبادی کو ترقی کے دھارے سے الگ نہیں رکھا جاسکتا۔تشدد کے خاتمے کے لئے خواتین کوبرابری کے حقوق کے ساتھ ساتھ ان کوبااختیار بناناناگزیر ہوچکاہے۔دنیا بدل چکی ہمیں بھی اپنے رویوں اور سوچ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔اگر چہ دنیا بھر اور بالخصوص پاکستان میں خواتین سے متعلق قوانین تو موجود ہیں لیکن اس پر عملدرآمد نہ ہونا بھی تشدد کی ایک بڑی وجہ ہے۔قوانین کو صرف کتابوں تک محدود نہیں ہونا چاہیئے بلکہ اس پر عملدرآمد ہونا چاہیئے اسی صورت تشدد کے خاتمے اور ایک فلاحی معاشرے کا خواب شرمندہ تعبیرہوسکتاہے۔ ڈاکٹر خالد عراقی نے مزید کہا کہ تعلیم ہی کے ذریعے عورت اپنے قانونی حقوق اور ان کی دستیابی سے آشنا ہو پاتی ہے،علم و آگہی کے ذریعے ہی معاشرے میں رائج منفی رجحانات اور رویوں کو ختم کیاجا سکتا ہے ۔انہوں نے اہم موضوع پر کامیاب کانفرنس کے انعقاد پر سینٹر آف ایکسلینس فارویمنز اسٹڈیز جامعہ کراچی اور کانفرنس کی آرگنائزنگ سیکریٹری ڈاکٹر علیہ علی بلگرامی کی کاوشوں کو سراہا۔ اقوام متحدہ خواتین کی ڈپٹی کنٹری ریپریزنٹیٹو جیکی کیتونتی نے کہا کہ خواتین میں جنسی ہراسگی کا رجحان خطرناک حدتک بڑھ چکاہے جس کا تدارک وقت کی اہم ضرورت ہے۔