امریکی اور اتحادی افواج کے افغانستان سے انخلا کو تقریباً تین ماہ ہوچکے ہیں لیکن افغانستان میں ابھی تک باضابطہ حکومت قائم نہیں ہوسکی اور اس کے حالات ایسے ہیں کہ اگر بین الاقوامی برادری اور عالمی اداروں نے آگے بڑھ کر معاملات کو سنبھالنے کے لیے طالبان کا ساتھ نہ دیا تو وہاں ایک بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ اب تک کسی بھی ملک نے باضابطہ طور پر طالبان کی عبوری حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ طالبان کے سامنے مختلف طرح کی شرائط رکھی جارہی ہیں اور کہا جارہا ہے کہ اگر وہ شرائط پر عمل درآمد کریں گے تو ان کی حکومت کو تسلیم کیا جائے گا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ انسانی حقوق سے متعلق تمام شرائط کو طالبان تسلیم بھی کرتے ہیں اور ان پر عمل درآمد کی یقین دہانی بھی کراچکے ہیں لیکن تاحال بین الاقوامی برادری کی طرف سے کوئی ایسا موقف سامنے نہیں آیا جس سے واضح ہوتا ہو کہ کب تک طالبان کی حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے افغانستان میں امن و استحکام کے قیام کے راہ ہموار کی جائے گی۔
طالبان اپنی حکومت کو تسلیم کرانے اور افغانستان میں امن و استحکام کے لیے کوششیں کررہے ہیں اور اس سلسلے میں وہ مختلف ممالک سے رابطے میں بھی ہیں۔ اسی حوالے سے افغانستان اور امریکا کے درمیان مذاکرات کا نیا مرحلہ آئندہ ہفتے قطر میں ہورہا ہے۔ طالبان نے کہا ہے کہ دوحہ مذاکرات میں امریکا کے ساتھ سیاسی تعلقات، اقتصادی مسائل کے حل اور دوحہ کے سالانہ معاہدے کی شرائط کے نفاذ پر بات ہوگی۔ امریکی وفد کی قیادت افغانستان کے لیے امریکی نمائندۂ خصوصی تھامس ویسٹ کریں گے۔ افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد امریکا اور طالبان کے درمیان یہ دوسری ملاقات ہوگی۔ افغان وفد 27 تا 29 نومبر کو دوحہ میں امریکی اور یورپی یونین کے نمائندوں سے ملاقات کرے گا۔ افغان وفد کی قیادت قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کریں گے۔ مذاکرات میں بنک اثاثوں کی بحالی، انسانی امداد، تعلیم اور صحت کی سہولیات کے علاوہ غیر ملکی سفارتخانوں کو دوبارہ کھولنے اور ان کی سکیورٹی پر بھی بات ہوگی۔ افغان وفد میں تعلیم، صحت، خزانہ، محکمہ سکیورٹی اور افغان مرکزی بنک کے حکام شامل ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے بتایا کہ طالبان سے مذاکرات میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغانستان میں انسانی بحران پر بات ہو گی۔ اس دوران امریکی شہریوں اور امریکا کے لیے کام کرنے والے افغانوں کا انخلاء زیر بحث آئے گا۔
ادھر، پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ افغان عوام کی اقتصادی ترقی کے لیے مشترکہ عالمی کوششوں کی ضرورت ہے۔ افغانستان میں امن کا مطلب پاکستان میں امن ہے۔ مسلح افواج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق، بدھ کو آرمی چیف سے برطانیہ کے افغانستان، پاکستان اور ایران کے لیے خصوصی نمائندے نگل کیسی نے جی ایچ کیو میں ملاقات کی۔ ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور، علاقائی سلامتی اور افغانستان کی تازہ ترین صورتحال پر بات چیت کی گئی۔ اس موقع پر جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ پاکستان عالمی اور علاقائی سطح پر برطانیہ کے کردارکو اہمیت دیتا ہے اور برطانیہ کے ساتھ باہمی تعلقات کو مزید وسعت دینے کا خواہاں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی توجہ سے افغانستان میں انسانی بحران کو روکا جا سکتا ہے۔ ملاقات میں برطانوی نمائندے نے افغان صورتحال میں پاکستان کے کردارکی تعریف کرتے ہوئے بارڈر مینجمنٹ اور علاقائی استحکام کے لیے پاکستان کی کوششوں کو سراہا۔
ایک طرف پاکستان افغانستان میں قیام امن کے لیے کوششیں کررہا ہے تو دوسری جانب کئی ممالک افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے اور اپنے حریفوں کو اس معاملے میں پچھاڑنے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔ اسی سلسلے میں متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے خلیجی حریف قطر کے مقابلے میں کابل میں واقع حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈا چلانے کے لیے طالبان کے ساتھ بات چیت کی ہے۔ اماراتی حکام نے حالیہ ہفتوں میں طالبان کے ساتھ کئی بار مذاکرات کیے تاکہ اس ہوائی اڈے کو چلانے پر تبادلۂ خیال کیا جا سکے۔اگست میں ہونے والے امریکی انخلاء کے بعد سے قطر اور ترکی مل کر یہ ہوائی اڈا چلارہے ہیں، اور قطر کا کہنا ہے کہ وہ اکیلا ہوائی اڈے کے معاملات کو سنبھالنے کے لیے تیار ہے لیکن طالبان نے ابھی تک قطر کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کیا۔ امریکی انخلاء سے پہلے تک اس ہوائی اڈے کا اختیار یو اے ای کے پاس تھا۔ ہوائی اڈے کا اختیار حاصل کرنے کا اصل مقصد اس حوالے سے انٹیلی جنس معلومات اکٹھی کرنا ہے کہ کون افغانستان میں آرہا ہے اور کون وہاں سے جارہا ہے۔
افغانستان کے حالات کا تقاضا یہ ہے کہ اس وقت مختلف ممالک مل کر اس کے معاملات میں سدھار پیدا کرنے کے لیے مدد اور تعاون کریں۔ پاکستان اس حوالے سے اپنا بھرپور کردار ادا کررہا ہے جس کا اعتراف امریکا سمیت کئی ممالک کرتے ہیں۔ افغانستان میں انسانی المیے کو پیدا ہونے سے روکنے کے لیے بھی پاکستان ہر طرح سے افغانستان کی مدد کررہا ہے۔ اسی سلسلے میں پاکستان نے بھارت کو واہگہ کے راستے گندم اور ادویات افغانستان بھیجنے کی اجازت دی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ افغانستان کو اس وقت جس بحرانی کیفیت کا سامنا ہے وہ امریکا اور اس کے حواریوں کی پیدا کردہ ہے، لہٰذا اب یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھ کر افغانستان کی ہر ممکن مدد کریں کیونکہ وہاں امن و استحکام قائم نہ ہونے سے صرف اس خطے کا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کا امن و امان بگڑ سکتا ہے۔
افغانستان: بین الاقوامی تعاون کے بغیر انسانی المیے پر قابو نہیں پایا جاسکتا
Nov 26, 2021