آج آپ نے میرے کپڑوں کے ساتھ میچنگ کی ہے:مریم کا پیشی پر صفدر سے مکالمہ
جب دل ملے ہوں تو رنگوں کے انتخاب میں بھی یکسانیت آہی جاتی ہے۔ میاں بیوی میں تو ویسے ہی بہت ہم آہنگی ہوتی ہے۔ چیزوں کے انتخاب میں یکسانیت ہوتی ہے۔ خاص طور پر جب دونوں مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھتے ہوں ورنہ غریب غربا کے گھروں میں ایسی ہم آہنگی شدید بحث مباحثہ توتکار کے بعد اس بات پر ہوتی ہے کہ رہنے دو یہ لینا ہی نہیں ہے یعنی قہر درویش برجان درویش یہ بے چارے اتفاق رائے سے کسی چیز سے دستبرداری کا اعلان کرکے باہمی ہم آہنگی کا ثبوت دیتے ہیں مگر مریم اور صفدر میں ایسی کوئی بات نہیں انہیں ایسے مسائل کا سامنا تو دور کی بات شاید یہ بھی معلوم نہیں ہوتا ہوگا کہ آج کس نے کس رنگ کا سوٹ پہنا ہے جوتے کون سے ہیں واسکٹ یا شال کیسی ہے میک اپ یا ہیئر سٹائل کون سا ہے ان کے وارڈ روب سینکڑوں مہنگے ترین سوٹوں سے جوتوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ ان میں سے اگر خوش قسمتی سے دونوں نے ایک ہی کلر کا انتخاب کیا ہو تو پھر واقعی یہ خبر ہے۔ گزشتہ روز ہائیکورٹ میں پیشی کے موقع پر جب مریم نے اپنے مجازی خدا صفدر کو دیکھا تو انہیں ان کے پاکٹ سکوائر کو دیکھ کر خوشی ہوئی کہ وہ انہی کے رنگ کے کپڑوں سے میچ کررہا تھا ۔ یوں دونوں کے مزاج کی ہم آہنگی سامنے آئی اور مریم نے شوخ سا جملہ کہا کہ آج آپ نے میرے کپڑوں کے ساتھ میچنگ کی ہے جواب میں صفدر نے بڑی تفصیل سے اپنی محبت کا اظہار کیا اور کہا کہ ’’ہم دونوں کے دل بھی ملے ہوئے ہیں‘‘ خدا کرے یہ ہم آہنگی برقرار رہے اور دل یونہی ملے رہیں اور دونوں خوش و خرم رہیں۔
٭٭٭٭٭
سویڈن کی پہلی خاتون وزیر اعظم چند گھنٹے بعد ہی مستعفی
یہ افتاد صرف اس لئے ٹوٹی کہ ان کی حکومت میں شامل اتحادیوں نے حکومت کا ساتھ چھوڑنے کا اعلان کردیا تھا۔ اب ’’دو چار ہاتھ آکے لب بام رہ گیا‘‘ کی تشریح اس خاتون میگڈیلینا اینڈرسن سے زیادہ بہتر شاید ہی کوئی کرسکے۔ چند گھنٹے قبل جس نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا ہو اور یہ چند گھنٹے ساعت یوم حساب بن گئے۔ نجانے کس نے سازش رچائی یہ چال چلی کہ اتحادی ناراض ہوگئے۔ یہ دوستوں کی مہربانی تھی یا دشمنوں کی شرارت کہ بجٹ پاس نہ ہونے پر حکومت کے اتحادیوں نے ساتھ چھوڑنے کا اعلان کردیا۔ جب چند گھنٹوں کی وزیراعظم نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تو پانی پیتے ہوئے ان کے ہاتھوں میں لرزنش اور آنکھوں میں آنسو تھے مگر ماتھے پر ندامت کا پسینہ نہیں تھا۔ ہمارے جیسے نیم جمہوری ممالک میں اگر ایسا لمحہ آئے تو چھانگامانگا اور مری سے لے کر جہازوں کی اڑان بھرنے کے کارناموں سے ہماری تاریخ بھری ہے۔ ہم تجوریوں کے منہ کھول کر یا تھانوں کے در کھول کر سب کو رام کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر حکومت چھوڑنے کا باعزت طریقہ نہیں اپناتے۔ یہ فرق ہوتا ہے جمہوری اور نیم جمہوری ممالک میں۔ نجانے ہمارے ہاں کب اعتماد کے ساتھ ایسے کڑے اور کڑوے فیصلے کرنے کی روایت جنم لے گی جب ندامت نہیں عزت کے ساتھ ہمارے حکمران کسی انہونی حالت میں باعزت واپسی کی راہ نکلیں گے۔
٭٭٭٭٭
مختلف حلقوں میں صرف 25 فیصد نوجوان ووٹ ڈالتے ہیں: یوتھ پارلیمنٹ
یہ چشم کشا باتیں پاکستان یوتھ پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکاء نے کی ہیں۔ جو افسوسناک ہے۔ نوجوان کسی بھی ملک و قوم کا وہ سرمایہ ہوتے ہیں جو ملک و قوم کی بہتری کیلئے تندہی سے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لاسکتے ہیں مگر پاکستان میں ان کی اہم قومی معاملات میں بے رخی دیکھ کر بہت حیرت ہوتی ہے۔ الیکشن کسی بھی ملک کے مستقبل کی راہیں چننے کا ان پر چلنے کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔ اب یوتھ پارلیمنٹ کے مطابق ہمارے ملک کے مختلف یعنی بیشتر حلقوں میں صرف 25 فیصد نوجوان ووٹ ڈالتے ہیں۔ یہ بہت مایوس کن بات ہے ہمارے ملک میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اگر وہ ہی اتنی کم تعداد میں ووٹ ڈالیں گے تو دوسروں سے کیا شکوہ عورتوں کے بارے میں یوتھ پارلیمنٹ میں بتایا گیا کہ گھریلو کام کاج، سواری کی عدم دستیابی وقت کی قلت یا دیگر مجبوریوں کی وجہ سے ان میں بھی ووٹ ڈالنے کا رجحان کافی کم ہے مگر نوجوان تو ایسی مجبوریوں اور ذمہ داریوں سے قدرے مبرا ہوتے ہیں کیا الیکشن کے دن وہ صرف ووٹروں کو وہ بھی خاص طور پر خواتین ووٹروں کو لانے لے جانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ بہرحال انہیں یہ لاتعلقی چھوڑ کر آگے آنا ہوگا تاکہ ووٹوں کی شرح میںمعقول اضافہ ہو۔ ووٹ اگر کوئی عمر رسیدہ یا بابا نہ ڈالنے جائے تو اس کی وجہ بیماری، مزاج کا چڑچڑا پن، ہمت کی کمی ہوسکتی ہے مگر جوانوں کو الیکشن کے دن کمر کس کر میدان میں آنا چاہئے تاکہ ووٹ ڈال کر اپنی قومی ذمہ داری ادا کرسکیں۔ انہی ووٹوں سے جو بھی حکومت آئے گی وہ اپنے نوجوان ووٹروں کی فلاح و بہبود کا خاص خیال رکھے گی۔
٭٭٭٭٭
خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا گیا
گزشتہ روز خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا گیا ۔ اس موقع پر حکومت پاکستان نے اس حوالے عوام میں آگہی کے لیے 16 روزہ مہم شروع کرنے کے پروگرام کا آغاز کیا ہے۔ دنیا بھر میں اس روز خواتین کے تحفظ کے حوالے سے سیمینار اور تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ جلوس اور ریلیاں نکالی جاتی ہیں، جن میں خواتین کے ساتھ متعصبانہ رویوں کی روک تھام پر زور دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی بدقسمتی سے مردانہ تسلط کی سوچ حاوی ہے۔ اس میں ایشیائی معاشرتی رسوم و رواج کے ساتھ ہندو مذہبی و معاشرتی اثرات کا بھی ہاتھ ہے۔ جہاں آج مردانہ معاشرہ اپنی تمام تر سفاکی کے ساتھ مرد کو ہی عقل کل اور دیوتا کا درجہ دیتا ہے۔ اس کے برعکس یورپ میں بھی تمام تر آزاد خیالی کے باوجود ابھی عورت وہ مقام حاصل نہیں کرسکی جو 1500 سال پہلے اسلام نے اسے عطا کیا۔ اسلام میں عورت اور مرد کو برابر ذہنی جسمانی صلاحیتوں کے ساتھ آگے بڑھنے کے مواقع حاصل ہیں۔ چند معمولی پابندیوں کے ساتھ اسلام عورتوں کو زندگی کے ہر میدان میں آگے بڑھنے کی اجازت دیتا ہے۔ جزا و سزا دونوں کے لیے برابر ہے۔ جبکہ اتنی آزادی اور حقوق کسی اور مذہب یا معاشرے میں عورت کو حاصل نہیں ۔ مردوں کو عورت پر ہاتھ اٹھانے اس پر لعن طعن انہیں تنگ کرنے نامناسب سلوک سے روکنے کاحکم بھی اسلام نے سب سے پہلے دیا ہے۔ اس لیے مسلمان معاشرے میں جو لوگ عورتوں کے ساتھ نامناسب سلوک اور رویہ رکھتے ہیں انہیں حقیقی اسلامی تعلیمات کا آئینہ دکھا کر ہی عورتوں کو تحفظ دیا جا سکتا ہے۔ ان پر تشدد کی راہ روکی جا سکتی ہے۔ خواہ وہ ذہنی ہو یا جسمانی۔