بچپن کے زمانے کی بات ہے، گرمیاں آتے ہی جابجا جنات کی باراتیں نظر آنے لگتیں۔ مٹی کے گول گول لمبے منارے اپنے محور کے گرد گرد گھومتے، چکراتے ایک سے دوسری طرف نکل جاتے۔ ہم بچوں میں مشہور تھا کہ چونکہ ان کے ہاں شادی ہوتی ہے، اس لئے یہ کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے لیکن کوئی اگر اس پر جوتا دے مارے تو پلٹ کر وہ جوتا مارنے والے کو لگتا ہے۔ بس یہ جناب اتنی ہی سزا دیتے ہیں۔ ہمارا شہر دریا اور صحرا کے بیچ تھا۔ اکثر جگہ پر زمین کی مٹی معمول کی ہوتی تو بہت سی جگہ پر ریت ملی مٹی بھی ہوتی چنانچہ مینارے کثرت سے ملتے۔ یہ بگولے جنہیں گردباد بھی کہتے ہیں، کئی بار ہماری طرف بڑھتے لیکن ان کا حجم کم ہونے لگتا اور ہم تک پہنچتے پہنچتے غائب بھی ہو جاتے یعنی ہوا میں تحلیل ہو جاتے۔ ایک بار ہم دو دوستوں نے تجربے کی ٹھانی۔ بوٹ نہیں، چپل پہنے ہوئے تھے چنانچہ اگر چپل ہمیں آ کر لگتی تو بہت زیادہ چوٹ کا اندیشہ نہیں تھا۔ جونہی ایک بگولہ (پنجابی میں واورولا) ہمارے پاس سے گزرا، دونوں نے ایک ایک چپل اس پر دے ماری اور تیار ہو گئے کہ اب یہ پلٹ کر ہمیں کو لگے گی۔ لیکن ہوا یہ کہ ایک چپل تو واورولے کے اندر سے گزرتی ہوئی اس پار جا گری اور دوسری اس سے ٹکرا کر وہیں نیچے گر گئی۔ جنوں کی بارات کا بھرم ٹوٹ گیا۔ آج بھی بچے ان بگولوں کو جنوں کی بارات اور بڑے گرم ہوا اور مٹی کا ”رولا“ سمجھتے ہیں۔
خان صاحب کا لانگ مارچ پچھلے مہینے لاہور سے ایک درمیانے سے ”واورولے“ کی شکل میں چلا تو میڈیا پر بیٹھے جنات پرست احباب نے غل مچایا کہ جنوں کی یہ بارات جوں جوں آگے بڑھتی جائے گی، اس کا حجم اور طاقت بڑھتی جائے گی اور جب یہ اسلام آباد یا پنڈی پہنچے گی تو ایک تباہ کن طوفان بن جائے گی اور ہر نقش کہن مٹا کے رکھ دے گی۔ بہت بربادی ہو گی اس لئے اے حکمرانو، ہوش کے ناخن لو، اس سے پہلے کہ قیامت آ جائے، جنات اور شاہ جنات سے مذاکرات کر لو، ورنہ پھر اللہ توبہ کا وقت بھی نہیں ملے گا۔
لیکن ہوا یہ کہ یہ بگولہ جوں جوں آگے بڑھتا گیا ، توں توں کم ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ عزت جنات (بروزن عزت سادات) خطرے میں پڑ گئی۔ دست غیب مدد کو یوں آیا کہ وزیر آباد میں ”حادثہ“ ہو گیا اور بارات کو سکڑنے اور سمٹنے کا موقع مل گیا۔ واورولا اگرچہ اس کے بعد بھی آگے بڑھتا رہا لیکن یہ جنوں کی ایسی بارات میں بدل گیا جو کبھی نظر آتی تھی، کہیں نظر نہیں آتی تھی۔ مقصد اس بارات کا تقرری کی دلہن کو لے اڑنا تھا، وہی دل والے دلہنیا لے جائیں گے لیکن تقرری تو ہو گئی اور کرامات یہ ہو گئی کہ بارات والے جنات نے بھی اس کا خیرمقدم کر دیا۔ یعنی وہ جو کہتے تھے کہ تقرری نہیں ہونے دیں گے، لاکھوں بلکہ کروڑوں اسلام آباد پنڈی کو گھیر لیں گے اور اپنی مرضی والی تقرری کریں گے، وہی اب مبارک سلامت کی قوالی کرنے لگے ہیں۔ ہم نے انقلاب چرخ گرداں یوں بھی دیکھے ہیں۔
ابھی دو ہی روز پہلے تک لگتا تھا کہ تقرری کا سارا ”واورولا“ خان کے گرد گھوم رہا ہے۔ حکومت غیر متعلق شے ہے اور ادارہ بھی۔ متعلق ہے تو ایک خان صاحب کی ذات اور واورولاچھٹا تو پتہ یہ چلا کہ اس سارے معاملے میں کوئی غیر متعلق بلکہ قطعی اور یکسر غیر متعلق تھا تو وہ صرف اور صرف خان صاحب تھے۔ اب یہ واورولا آج تحلیل ہونے والا ہے تو کیا کہتے ہیں میڈیا کے جنات پرست احباب۔
حد تو یہ ہوئی کہ جس پہ تکیہ تھا، وہی علوی ہوا دینے لگا۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق اس نے خان صاحب سے صاف معذرت کر دی کہ حضرت ، سمری روکنا میرے لیے مشکل ہے یہ نہیں ہو سکتا سر!
__________
فول پروف منصوبہ یہ طے ہوا تھا کہ سمری عارف علوی کے پاس آئے گی تو وہ بطور صدر مملکت اس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیں گے اور واپس بھجوا دیں گے۔ اس دوران ایک خوش فہمی کی ہوا بھی بڑے زور سے چلی کہ سمری نے تو آنا ہی نہیں ہے، اس کے بجائے باجوہ صاحب کو توسیع مل جانی ہے اور یوں ہمیں فتح کے ڈنکے بجانے کا موقع مل جانا ہے لیکن یہ خوش فہمی بھی ”واورولے“ کی طرح چکر دے گئی اور سمری آ گئی۔ خان صاحب نے علوی صاحب کو فون کیا، منصوبے پر کاربند رہنے کا ”حلف“ لیا اور پھر بیان داغ دیا جو سب اخبارات میں شہ سرخیوں سے چھپا کہ میں اور علوی مل کر اس سمری سے کھیلیں گے۔ سمری تھی یا ٹیڈی بیئر“۔
اگلے ہی روز خان صاحب نے علوی صاحب کو زمان پارک بلا لیا کہ آﺅ اس سمری سے کھیلیں۔علوی صاحب آئین قانون اور صدارتی پروٹوکول کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر اڑتے ہوئے زمان پارک پہنچے اور یہ کہہ کر خان صاحب کو ششدر بلکہ بھونچکا بلکہ ”ہراساں“ کر دیا کہ سر، سمری روکنا میرے بس میں نہیں۔ خان صاحب ایک بار تو ایسے صدمے میں آئے کہ یہ بھی نہ کہہ سکے کہ یوٹوعلوٹس، معاف کیجئے گا، بروٹس۔! منصوبہ فول پروف تھا، پھر اس میں سے پروف کا لفظ نکل گیا۔یہ علوی صاحب تھے، خان صاحب کے وفادار اور تابعدار ۔ کوئی اور ہوتا تو شاید کہہ دیتا کہ خان صاحب آپ چھ ماہ سے ملکی مفاد، ملکی معیشت، آئین اور قانون سے کھیل رہے ہیں اور کھیلتے ہی جا رہے ہیں، کیا جی ابھی بھرا نہیں۔
__________
خان صاحب مقبولیت کے جس ”واورولے“ پر سوار شاہ جنات بنے ہوئے تھے، اس کی خاصی گرد بیٹھ چکی ہے اور کافی ہوا، ہوا ہو گئی ہے۔ کچھ گرد فارن فنڈنگ نے بٹھائی، پھر توشہ خانے نے کچھ ہوا نکالی اور رہی سہی کسر اپنے ہی بیانیوں کی اپنے ہی ہاتھوں گورکنی نے نکال دی۔
واورولا تحلیل ہونے کو ہے، گو ابھی کچھ عرصہ چکراتا رہے گا
(نوٹ: اصل لفظ برات ہے، عوامی رائے کی رعایت سے بارات لکھا)
چودھری پرویز الٰہی نے جہانیاں میں خطاب کیا اور فرمایا کہ قائد اعظم کے بعد عمران خان پہلے سچے لیڈر ہیں، قوم ان کا ساتھ دے۔
”نمبرنگ“ میں غلطی ہو گئی ہے، باقی بیان درست ہے۔ نمبرنگ کی غلطی یادداشت کی ناطاقتی کی وجہ سے ہو ہی جایا کرتی ہے، پریشانی کی بات نہیں۔ بہرحال، ہم یاد دلائے دیتے ہیں کہ 90 کی دہائی میں یہی بیان انہوں نے نواز شریف کے بارے میں بھی دیا تھا بلکہ روایت تو یہ بھی ہے کہ جب اس وقت کے پہلے سچے لیڈر جب گجرات پہنچے تو چودھری برادران نے ان کی کار کو ہاتھوں سے اٹھا لیا تھا اور ہاتھوں ہاتھ لینے کا محاورہ سچ کر دکھایا تھا۔ نواز شریف کئی برس تک قائداعظم کے بعد پہلے سچے لیڈر کے مقام پر فائز رہے، پھر جنرل مشرف نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تو چودھری صاحب نے بیان میں ترمیم کی اور فرمایا کہ پرویز مشرف قائداعظم کے بعد پہلے سچے لیڈر ہیں، قوم کو چاہیے کہ وہ انہیں دس بار وردی میں صدر منتخب کرائے۔ وہ دور بھی عرصہ گزراں کی نذر ہوا تو زرداری صاحب کی حکومت آئی۔ تو پتہ چلا کہ قائد کے بعد کوئی آیا ہے تو اس کا نام آصف علی زرداری ہے۔ اس پہلی سچی قیادت کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے پرویز الٰہی صاحب ان کے نکے وزیر اعظم بن گئے۔یہ نام انہیں کس نے دیا، یہ پتہ نہیں لیکن یہ نام بہت چلا حالانکہ یہ بات غلط تھی اس لیے کہ وڈے وزیر اعظم پرویز الٰہی تھے کیونکہ جن صاحب کو غلط فہمی سے وڈا وزیر اعظم سمجھ لیا گیا تھا یعنی یوسف رضا گیلانی کو وہ پرویز الٰہی سے بارہ سال چھوٹے تھے۔ اس لیے وڈے تو پھر پرویز الٰہی ہی تھے۔ اب عمران کی حکومت آئی اور وفاق میں ختم ہونے کے بعد پنجاب میں باقی رہی تو عمران خان قائد اعظم کے بعد۔ درست گنتی کے موجب۔ چوتھے سچے رہنما ہیں، پہلے نہیں۔ چودھری صاحب کی باقی بات درست ، نمبرنگ کی غلطی البتہ ہوئی وہ ہم نے درست کر دی۔
__________