ابھی ابھی ایک دوست کا فون آیا کہنے لگا سنا ہے پاکستان تحریکِ انصاف کے بہت سے لوگ اسمبلی میں واپس جانے کے حامی ہیں۔ میں نے کہا ہو سکتا ہے لیکن یہ بتائیں کہ اسمبلی میں جانے کی سوچ رکھنے والوں میں اتنی جرا¿ت ہے کہ وہ سامنے آئیں اور اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ وہ سب تو اپنے قائد کے ایک اشارے کے منتظر رہتے ہیں۔ قائد کہے دن تو وہ کہیں گے دن ہے قائد کہے کہ رات ہے تو وہ سوچے سمجھے بغیر کہیں گے کہ رات ہے ان حالات میں ایسی سوچ کا کیا کرنا ہے جو آزادانہ فیصلہ کرنے میں مدد نہ دے، میں سوچتا رہوں کہ بھلائی کا ساتھ دینا ہے لیکن کسی کے دباو¿ میں آ کر اپنی ذمہ داری ادا نہ کر سکوں تو کیا فائدہ۔ فون کرنے والا کہنے لگا بات تو ٹھیک ہے لیکن پھر بھی کیا ایسا ممکن ہے کہ
پی ٹی آئی اسمبلی میں واپس آئے اور جمہوری طریقے سے معاملات آگے بڑھیں۔ میرا جواب تھا پی ٹی آئی کرنے پر آئے تو کچھ بھی کر سکتی ہے اس جماعت سے آپ کسی بھی وقت کچھ بھی توقع کر سکتے ہیں چونکہ پاکستان میں ان سے بڑا یو ٹرن ماسٹر کوئی نہیں ہے لہٰذا ہمیشہ یاد رکھیں کہ اسمبلی میں واپسی پی ٹی آئی کے لیے کوئی بڑی بات ہرگز نہیں لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ یہ فیصلہ وہ اس وقت کریں جب ان کا اسمبلی میں ہونا یا نہ ہونا بالکل بے معنی ہو جائے کیونکہ اس جماعت کے لوگ فیصلہ کرنے سے پہلے نہیں بلکہ فیصلے کے اچھے یا برے اثرات سامنے آنے کے بعد سوچتے ہیں کہ یہ فیصلہ کرنا چاہیے تھا یا نہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی تاریخ ایسے فیصلوں سے بھری پڑی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مرتبہ وہ تاریخ دہراتے ہیں یا نئی تاریخ رقم کرتے ہیں۔ فون کرنے والے نے کہا چلیں چودھری صاحب دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے پھر کہنے تہاڈے کول تے خبر ہووے گی، دس دیو ایہہ کرنا کی چاہندے نیں۔ میرا جواب تھا ساری خبر اک فون تے دس دتی تے تہاڈی جستجو مک جانی جے حوصلہ رکھو تے ویکھو ہوندا کی اے۔
اب معاملہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے لوگ چاہتے تو ہیں کہ اسمبلی میں واپس جائیں کیونکہ جس طرح کی مزاحمتی سیاست ہو رہی ہے ملک مسلسل ان حالات کو برداشت نہیں کر سکتا۔ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان خود کہتے ہیں کہ معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام کی ضرورت ہے لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ سیاسی استحکام کیسے آئے گا۔ جب وہ روزانہ اداروں اور حکومت کو برا بھلا کہتے رہیں، لوگوں کو یہ بتائیں کہ ملک محفوظ ہاتھوں میں نہیں ان حالات میں استحکام کیسے آئے گا۔ یا پھرعمران خان کے سیاسی استحکام کا مطلب صرف ان کی حکومت اور ملک میں پاکستان تحریکِ انصاف کی شکل میں صرف ایک سیاسی جماعت کا وجود ہے اگر وہ ایسا چاہتے ہیں تو ایسا بالکل بھی ممکن نہیں ہے۔ یہ سوچ ملک کو مزید کمزور کر سکتی ہے۔ کروڑوں لوگوں کے اس ملک میں جہاں ہر صوبے کی اپنی ایک سیاسی تاریخ ہے وہاں یہ کیسے ممکن ہے آج بھی عمران خان یہی بات کر رہے ہیں کہ حکمرانوں سے بات نہیں ہو سکتی اس طرح تو سیاسی استحکام نہیں آ سکتا اور اگر پی ٹی آئی حکومت میں آتی ہے تو پھر وہ ان سے بات نہیں کریں گے یونہی سلسلہ چلتا رہے گا تو بات کیسے آگے بڑھے گی۔ سیاسی استحکام کے لیے عمران خان کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا انہیں یہ ذمہ داری دوسروں پر ڈالتے رہنے کے بجائے اپنا حصہ بھی ڈالنا ہو گا۔ صرف دوسروں کو للکارنے، روزانہ برا بھلا کہنے سے لوگوں کو ذہنی مریض تو بنا سکتے ہیں تعمیر کی طرف نہیں جا سکتے۔ سیاسی استحکام کے لیے سب کو کردار ادا کرنا ہو گا۔ اگر پاکستان تحریک انصاف کو قبل از وقت انتخابات نظر نہیں آ رہے جیسا کہ ان کی طرف سے یہ سننے کو بھی مل رہا ہے کہ انتخابات اکتوبر تک جا سکتے ہیں جب یہ واضح ہو رہا ہے تو پھر سڑکوں پر رہنے کا کیا جواز ہے، کیوں عام آدمی کے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں، کیوں احتجاج اور مظاہروں کے ذریعے عدم استحکام پیدا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کیا صرف اپنے ووٹرز کو متحرک رکھنے کے لیے ملکی معیشت اور سیاسی استحکام کو داو¿ پر لگانا عقلمندی ہے۔ کچھ سوچیے، ملک کے بارے سوچیں اور سب کے بارے سوچیں، آپ کسی کو پسند کریں یا نہ کریں لیکن جو افراد نظام کے ذریعے پارلیمنٹ میں موجود ہیں ان کے بارے ذاتی خیالات یا سوچ کے بجائے حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کریں۔ پاکستان تحریکِ انصاف ملک کی بڑی سیاسی جماعت ہے اسے پارلیمنٹ میں ہونا چاہیے، سڑکوں پر وہ ملک و قوم کی خدمت نہیں کر سکتی، سڑکوں پر رہتے ہوئے وہ صرف مسائل پیدا کر سکتی ہے جب کہ سیاست دانوں کی پہچان مسائل کا حل ہے۔ پارلیمنٹ میں جائیں لوگوں کے ساتھ بیٹھیں، خود کو سب سے بہتر، افضل سمجھنا بند کریں۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد آپ کے ساتھ ہے اس کی درست سمت رہنمائی کریں۔ نوجوانوں میں نفرت کے بیج نہ بوئیں انہیں ملک اور اداروں سے محبت کا سبق دیں۔ صرف اقتدار کی خاطر نوجوانوں کا مستقبل داو¿ پر نہ لگائیں۔ ملک کی خدمت کے لیے صرف حکومت میں رہنا ضروری نہیں ہے۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نیب کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیب کو ختم کر کے ملک کے نظام کو چلانا چاہیے۔ شاہد خاقان عباسی صاحب سے درخواست ہے کہ وہ نیب کو ختم کرنے کی آواز ضرور بلند کریں لیکن پھر حکمران طبقے کو یہ بھی یاد کروائیں کہ قوم کے پیسے کو امانت سمجھ کر استعمال کریں۔ قانون کہیں حرکت میں آتا ہے کہیں نہیں آتا لیکن جہاں قانون کو حرکت میں رہنے کی ضرورت ہے وہاں تو اسے اپنا کام کرنے دیں۔ قوانین میں ترمیم کام کے حوالے سے جب مرضی کریں لیکن کسی کو لوٹ مار کی اجازت تو نہیں ہونی چاہیے یہاں تو لوگ لاکھوں کی چائے پی جاتے ہیں۔ سرکاری خزانے پر مال مفت دل بے رحم کے مصداق ہاتھ صاف کیا جاتا ہے۔ آپ نیب کو ختم کر دیں لیکن اپنے لوگوں کو بھی اس انداز میں تیار کریں کہ نہ تو وہ غلط کام کریں نہ حصہ بنیں نہ کسی کو کرنے دیں۔ اگر خود احتسابی اس سطح پر ہو تو پھر احتساب کے کسی ادارے کی ضرورت نہیں رہتی لیکن اس سے پہلے ہمارا خود بے رحمی کی حد تک ایماندار ہونا ضروری ہے۔ اللہ کرے کہ وہ دن آئے جب ہم اپنے لوگوں کو اس حد تک ایماندار دیکھیں گے۔ مشکل ضرور ہے ناممکن تو نہیں۔