اہلِ سیاست مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھیں 


صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے دستخطوں کے ساتھ پاک فوج میں اعلیٰ عہدوں پر تقرری کا عمل مکمل ہو گیا ہے۔ جنرل ساحر شمشاد مرزا 27 نومبر کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے جبکہ جنرل عاصم منیر 29 نومبر کو پاک فوج کے سپہ سالار کے عہدے کا چارج لیں گے۔ دونوں اعلیٰ افسران نے ترقی پانے کے بعد صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور وزیر اعظم محمد شہباز شریف سے الگ الگ ملاقاتیں کیں اور فوج سے متعلقہ دفاعی امور کے بارے میں تبادلۂ خیال کیا۔ ان تقرریوں سے قبل پورے سیاسی منظرنامے پر ایک یہی موضوع ہی زیر بحث رہا۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ پورے ملک میں ایک ہی مسئلہ سر دردی کا باعث بنا ہوا ہے باقی سارے مسئلے زیر زمین چلے گئے۔ اس دوران ان تعیناتیوں کے حوالے سے گفتنی ناگفتنی باتیں ہوتی رہیں، اس قسم کی افواہیں اور منفی پراپیگنڈا بھی کیا جاتا رہا کہ وزیر اعظم کی طرف سے بھیجی جانے والی سمری پر صدرِ مملکت دستخط کرنے کے بجائے اسے نظرثانی کے لیے واپس وزیر اعظم کو بھجوا دیں گے اور یوں یہ انتہائی حساس نوعیت کا معاملہ وقتی طور پر لٹکا دیا جائے گا۔ ان تقرریوں میں حکومت کی طرف سے غیر ضروری تاخیر بھی معاملات کو الجھانے اور ابہام پیدا کرنے کا باعث بنی رہی۔ اسی دوران سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے گزشتہ ماہ سے شروع کئے جانے والے احتجاجی لانگ مارچ کے نئے فیز کے طور پر 26 نومبر کو پارٹی کارکنوں کو راولپنڈی پہنچنے کی کال بھی دے دی۔ جس کے پیچھے انہی تقرریوں کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے یا اداروں کو دبائو میں لانے کا مقصد کارفرما تھا لیکن وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے اتحادیوں اور سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے ساتھ مشاورت کے بعد افواج پاکستان میں اعلیٰ ترین عہدوں پر تقرریوں کے سلسلے میں میرٹ اور سینیارٹی کے اصول کو اپنانے کا عندیہ دے دیا اور پھر اسی اصول کی بنیاد پر جنرل عاصم منیر اور جنرل ساحر شمشاد مرزا کی بالترتیب بطور آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی تقرری کا فیصلہ بھی کر دیا۔ یہ اقدام ایسا تھا کہ جس نے عمران خان کے عزائم کو یکسر ناکام بنا دیا۔ سینیارٹی کے اصول کی بنیاد پر تقرری کے فیصلے نے اس پراپیگنڈے کے غبارے سے ہوا نکال دی کہ  وزیر اعظم میاں شہباز شریف اپنی پسند کے جرنیل کو ترقی دے کر آرمی چیف بنانا چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم نے  26 نومبر سے پہلے فیصلہ کر کے عمران خان کے لیے اس تاریخ کو جلسے کی کال کو بے اثر کر کے رکھ دیا ہے۔ اب عمران خان کے لیے اس حوالے سے بیچنے کے لیے کچھ نہیں بچا۔ ممکنہ اعتراضات کی بھی گنجائش نہیں رہی  اور پورے ملک میں جو ایک ہیجانی کیفیت پیدا ہو چکی تھی وہ بھی ختم ہو گئی ہے۔ 
وزیر اعظم شہباز شریف کے آفس سے جاری اعلامیہ کے مطابق انہوں نے جنرل ساحر شمشاد مرزا اور جنرل عاصم منیر کو مبارکباد پیش کی اور کہا کہ سینیارٹی کے اصول پر فیصلہ ادارے کی مضبوطی کے ساتھ ملک میں استحکام کا باعث بنے گا۔ فوجی قیادت کی تقرری کے معاملے پر دبائو کے باوجود فیصلہ میرٹ پر کیا گیا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس موقع پر کہا کہ صدر عارف علوی نے اپنے عہدے کا تقاضا پورا کیا۔ انہوں نے اس معاملے میں دانشمندی کا ثبوت دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک بحران سے بچ گئے اور مرحلہ بخیر و خوبی طے پا گیا۔ 
افواج پاکستان میں جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین اور سپہ سالار کی تقرری جس طرح میرٹ اور سینیارٹی کے اصول پر کی گئی ہے اس نے مستقبل کے لیے بھی اس حوالے سے راہیں متعین کر دی ہیں۔ اب یہ اصول ہمیشہ کے لیے طے ہو جانا چاہیے کہ تمام ریاستی اداروں میں ترقیاں اور تقرریاں میرٹ اور سینیارٹی کی بنیاد پر ہوں گی تاکہ ذاتی پسند و ناپسند کے مکروہ عمل کا خاتمہ ممکن ہو سکے اور اداروں میں ایک مضبوط اور مستحکم سسٹم قائم ہو سکے۔ اس سے متعلقہ افسران میں بھی اعتماد پیدا ہو گا اور وہ بھی اپنی تقرری اور تعیناتی کے لیے سینیارٹی سے ماورا قدم اٹھانے سے گریز و اجتناب کریں گے۔ 
نئے سپہ سالار بھی اپنے پیش رو جرنیل کی طرح ایسے وقت میں اس اہم ترین عہدے پر متمکن ہوئے ہیں جب پاکستان کو اندرونی اور بیرونی محاذ پر بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور معاشی بدحالی کے عفریت منہ کھولے کھڑے ہیں جن پر بڑی حکمت کے ساتھ قابو پانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کا ازلی دشمن بھارت اول روز ہی سے پاکستان کے خلاف موقع کی تاک میں رہتا ہے کہ کسی طرح پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچا سکے۔ اس نے پاکستان کے اندر ملک دشمن عناصر سے رابطے قائم کر رکھے ہیں جنہیں وہ ہر قسم کی سپورٹ مہیا کرتا ہے اور جس کی شہ اور ہلاشیری سے یہ عناصر پاکستان کے اندر تخریبی کارروائی کرتے ہیں۔ تحریکِ طالبان پاکستان بھی موقع بہ موقع پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتی رہتی ہے اسی طرح افغانستان کی طالبان حکومت بھی پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے سے مجتنب دکھائی دیتی ہے۔ نئے آرمی چیف کو ان تمام چیلنجز سے نمٹنا ہو گا۔ فوج  کو مزید مضبوط کرنا اور اس کا مورال مزید بلند کرنے کے لیے بھی اقدامات کرنے ہوں گے۔ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے آخری خطاب میں فوج کے بحیثیت ادارہ سیاست سے لاتعلقی اختیار کرنے کے جس عزم اور عہد کا اظہار کیا ہے نئے آرمی چیف کو اس پر عملاً کاربند رہنا ہو گا۔حقیقت یہ ہے کہ  فوج کے اس ادارہ جاتی فیصلے نے ملک کے سیاست دانوں کو بھی آزمائش اور امتحان میں ڈال دیا ہے۔ اب یہ اہلِ سیاست کی بھی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سوچ، اپنی فکر اور طرزِ عمل میں مثبت تبدیلی پیدا کریں۔ 
سابق وزیر اعظم عمران خان کو بھی ، جو مسلسل بلیم گیم کے ذریعے قومی وقار اور سلامتی کو دائو پر لگانے کی سیاست کو فروغ دینے میں مصروف ہیں، اب بے مقصد احتجاج کا راستہ ترک کر کے اور لانگ مارچ ختم کرنے کا اعلان کر کے مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے اور ملک کی سیاست میں ایک ذمہ دار اور سنجیدہ فکر سیاستدان کے طور پر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ تاکہ ملک آگے کی طرف بڑھ سکے اور قوم کو بھی یک گو نہ سکون میسر آ سکے۔ سیاستدانوں کے درمیان جاری چپقلش ملکی ترقی اور سیاسی استحکام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اسے ختم کر کے ہی ملکی ترقی و خوشحالی کا حصول ممکن بنایا جاسکتاہے ۔

ای پیپر دی نیشن