اسلام، جداگانہ تشخص کا حامل مذہب

یوں تو ابراہیمی مذہب کوئی نہیں اصطلاح نہیں صدیوں سے مستعمل ہے اس سے مراد وہ ادیان جو سیدنا ابراھیم علیہ السلام سے ماخوذ ہیں عام طور ان ادیان میں اللہ پاک کی ذات کو سب سے یکتا اعلی و ارفع تسلیم کیا جاتا ہے اندرونی طور پر موحد کہلاتے ہیں اور سیدنا ابراھیم ؑکو غیر متنازع طور پر برگزیدہ نبی تسلیم کیا جاتا ہے ان ادیان میں یہودیت عیسائیت اور اسلام نمایاں ترین ادیان ہیں ان ادیان میں سزا، جزا، توبہ، نجات، یوم آخرت، جنت دوزخ سمیت بیشمار نظریات بلکہ ایمانیات مشترکہ ہیں۔ جدید ابراہیمی مذہب کی بنیادیں انیسویں صدی کے وسط سے جا ملتی ہیں جب بینجمن ولیم نامی بائبلی سکالر نے چرچ آف گاڈ کے نام سے باقاعدہ عبادت گاہ قائم کر کے ابراہیمیؑ دین کے علوم کی ترویج کیلیے کوششوں کا آغاز کیا اس کے عقائد ونظریات کا محور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی واپسی کے حوالے تیاری تھا۔ وہ نوجوانوں کو جنگ و جدل کی بجائے معاشرتی برائیوں سے برسرِ پیکار رہنے کی ترغیب دیتا تھا اس کے خیال میں جنگ و جدل اعلیٰ اخلاقی اقدار کی ناکامی کا نام ہے تاہم ان اجمال کے علاؤہ اس مذہب کے حوالے سے کوئی باقاعدہ لٹریچر نہیں ملتا۔ دنیا کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر بظاہر یہ نظریات بہت خوش کن اور امید افزائ￿  ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ان کے پس پردہ محرک کچھ اور تو نہیں کئیں یہ کوئی سیاسی تحریک تو نہیں جس کی آڑ میں کچھ خاص مقاصد حاصل کرنا مقصود ہو یا پھر ان تینوں ادیان یا ان میں سے کسی میں دراڑ ڈالنے کی سازش ہے۔ یہ تحریک یورپ اور امریکہ سے اسرائیل تک پہنچی اور حالیہ برسوں میں  عرب دنیا میں اس نئے مذہب کا کافی چرچہ ہے سر دست اس نئے مذہب کے خدو خال واضح ہیں نہ ہی کوئی تحریری متن موجود ہے حتیٰ کہ اس کے پیروکار بھی دستیاب نہیں لہذا اسے ایسا مفروضہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے جو ابتدائی صورت اور ترویج کے مراحل میں ہے۔ بظاہر اس کا بنیادی مقصد ان ادیان میں ایمانیات اور نظریات کے متعلق مشترکہ چیزوں پہ توجہ مرکوز کرنا ہے۔یہ معاملہ چونکہ خاموشی اور رازداری سے چل رہا تھا اور اس کے اثرات بھی کئی نظر نہیں آ رہے تھے لہذا کسی کی توجہ حاصل نہ کر سکا لیکن اس حوالے سے شکوک وشبہات کا آغاز ستمبر 2020 سے ہوا جب لفظ ابراہیمیہ کا استعمال متحدہ عرب امارات اور بحرین کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدے پر دستخط کے وقت کیا گیا۔اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے مشیر جیرڈ کشنر کے ذریعے کئے گئے اس معاہدے کو ’’ابراہیمی معاہدہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اماراتی حکومت پہ سوشل میڈیا کے ذریعے ابراھیمی دین کی تشہیر کا الزام بھی لگایا گیا ہے اور 2019 میں دبئی کے حکمران کے جامع الظہر کے شیخ احمد الطیب اور پوپ فرانسس کے تاریخی دورے کی یادگار کے طور پر ابراھیمی فیملی ہاؤس کے قیام کو بھی اب اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے جہاں ایک ہی عمارت میں مسجد چرچ اور سینا گوگ تعمیر کئے گئے۔یاد رہے  2014ء میں جرمنی کے شہر برلن میں بھی اسی طرح کی عمارت بنائی جا چکی ہے مصر میں مصر فیملی ہاؤس کے نام سے یہ منصوبہ دس سال سے جاری ہے اسی طرح امریکہ میں بھی غالباً اس طرز کی کوئی عمارت بنائی گئی ہے۔ مصر کے شیخ احمد الطیب کے گزشتہ برس سے مسلسل اس  دین کے متعلق بیانات نے عرب دنیا میں کافی سنسنی خیز ماحول پیدا کر دیا ہے شیخ الطیب نے واضح طور پر نہ صرف اس نئے مذہب کو مسترد کر دیا ہے بلکہ اسے بے رنگ و بو قرار دیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ایک دوسرے کے عقیدے کا احترام اور چیز ھے جبکہ اسے تسلیم کرنا بلکل علیحدہ چیز ہے انھوں نے مزید کہا کہ ’عیسائیت، یہودیت اور اسلام کو ایک مذہب میں ضم کرنے کی خواہش کا مطالبہ کرنے والے تمام برائیوں سے نجات کا دعویٰ لے کر آئیں گے لیکن سب فریب ہوگا ۔ کچھ مبصرین نے اسے عربوں کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پہ لانے کی سیاسی حکمت عملی قرار دے دیا ہے لیکن زیادہ گہری نظر رکھنے والے اسے سیاسی اور اقتصادی ہی نہیں بلکہ ثقافتی مقاصد بھی قرار دیتے ہیں۔ عرب دنیا کے مذہبی سکالرز اس معاملے پہ واضح طور پر تقسیم دکھائی دیتے ہیں کیونکہ بہت علمائ￿  اس دین کو توہین رسالت سے تعبیر کرتے ہیں تو بہت سے اسے امن کا راستہ بھی قرار دیتے ہیں اس موضوع پہ یونین آف مسلم سکالرز، مسلم سکالرز لیگ اور عرب ویسٹرن لیگ نے ایک کانفرنس منعقد کی جس کا عنوان تھا ’ابراہیمی مذہب پر اسلامی علما کا موقف'۔ اس کانفرنس میں بھی واضح طور پر علمی اختلافات سامنے آئے اس معاملے کی تائید کرنے والوں میں نمایاں نام شیخ زید مسجد کے امام وسیم یوسف کا ہے۔ ان کے علاؤہ بھی کافی علماء  
اس کی تائید کر چکے ہیں۔ میری ذاتی رائے کے مطابق اگر تو یہ کاوش ابراہیمی ادیان کو قریب لانے کیلئے ہے تو قابلِ ستائش ہے کیونکہ اسلام خود اہل کتاب کو مشترکہ اور غیر متنازعہ امور پر بات چیت کی دعوت دیتا ہے اسی طرح اس کا مقصد اگر خلوصِ دل سے دنیا میں قیام امن اور تنازعات کو رفع کرنا ہے تو بھی بہت اعلیٰ مقصد ہے اسلام تو امن اور بھائی چارے کا دین بھی اور داعی بھی اور اگر شیخ احمد الطیب اور دیگر مذہبی سکالرز کے شکوک وشبہات درست ہیں کہ تینوں الہمامی ادیان کے انضمام کی کوشش اور اسرائیل کو اسلامی دنیا سے تسلیم کرانے کی سازش ہے تو پھر یہ قابل مذمت ہے۔ اسلام علیحدہ تشخص کا حامل ایک کامل دین اور مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں ایسی کمی یا خامی موجود نہیں جسے کسی دیگر دین میں ضم کر کے پورا کیا جائے۔ 

ای پیپر دی نیشن