گورنمنٹ کالج ساہیوال تاریخی حیثیت کا حامل تعلیمی ادارہ ہے،اس کا قیام 1942ء میں عمل میں آیا۔ اس کاسرگوشیاں کرتا ہواکیمپس،مزین لائبریری ،وسیع وعریض کھیلوں کے میدان،خوب صورت باغات ،دیدہ زیب ہاسٹل اور کیفے ٹیریا کامنفردماحول اسے انفرادیت عطاکرتاہے۔اس کے درختوں کی شاخوں پربیٹھے پرندے ،نایاب اقسام کے پیڑ اورسبزہ زار ہمارے ساتھ باتیں کرتے ہیں۔اس ادارے نے 1942ء سے آج تک بہت سی آفتاب وماہتاب شخصیات پیدا کیں،جوملک کے طو ل وعرض میں خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔آج سے کچھ عرصہ پہلے کچھ دوستوں کے ذہن میںاس کالج کی ایلومنائی ایسوسی ایشن تشکیل دینے کا خیال آیا اور یوں رئیس کلیہ پروفیسر ڈاکٹر ممتاز احمدکی سرپرستی میں اس بزم دوستاں کی بنیادرکھ دی گئی۔اس کے قیام کا مقصد صرف بزم آرائی نہ تھا ۔فی الواقع ایلومنائی کے زیراہتمام نادار اورضرورت مند طلبہ وطالبات کی بہتری کے لیے بہت سے فلاحی کام ہوئے،۔19نومبر2022ء کو گورنمنٹ کالج ساہیوال کے میاں اصغرعلی ٹیرس گارڈن میں ایلومنائی کا دوسرا سالانہ عشائیہ ہوا۔اس شاندار پروگرام میں شمولیت کے لیے ملک کے مختلف گوشوں سے اپنی مادرعلمی کی محبت میں سابق طلبہ دیوانہ وارامڈے چلے آئے۔ان میں سیاست دان، دانشور، صحافی، علماء کرام، تاجر، وکلا، ججز، اساتذہ،فوجی افسران ،زمینداراور بیوروکریٹس سبھی شامل تھے۔یہ ایک ایسی روایت کاآغازتھا، جو ہمارے ہاں اب معدوم ہوتی جارہی ہے۔ ارباب اختیارکی طرف سے شعوری طورپرپبلک سیکٹر کے تعلیمی اداروں کے مقابلے میں نجی اداروں کی حوصلہ افزائی اور دیگراسباب کی وجہ سے اِن اداروںکو کوشش کرکے اپنا تشخص بہتر بناناچاہیے۔ گورنمنٹ کالج ساہیوال کی سابق طلبہ وطالبات کی اس انجمن نے اس سلسلے میں بنیادی کردار اداکیاہے۔ ایلومنائی کے باکمال اورمتحرک صدر میاں عاطف محمود آئرلینڈ میں مقیم ہیں،انھوں نے بڑی محنت اورجانفشانی کے ساتھ اسے ایک باوقار ایسوسی ایشن بنادیاہے۔ اپنی علالت کے سبب وہ اس سال عشائیے میں شریک نہیں ہوسکے تھے،ان کی عدم موجودگی میں سینئرنائب صدرمعروف شاعر اورنیک نام صحافی سعیدآسی نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا خوب مظاہرہ کیا، آسی صاحب اپنی ٹیم کے ارکان کے ساتھ تقریب میں تشریف لائے،اُن کی جانشیں،شیردل صاحب زادی شاذیہ سعید بھی ہم راہ تھی۔ایلومنائی کی اس تقریب کی نظامت کی ذمہ داری اس فقیر پر تقصیر نے اداکی،تلاوت کلام پاک کی سعادت نظرالمسعود ایڈوکیٹ نے حاصل کی،معروف نعت خواں علی رضانے مظفروارثی کا نعتیہ کلام پڑھ کراپنی خوش گلوئی سے حاضرین کومسحورومبہوت کردیا۔غیررسمی پروگرام کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری معروف قانون دان عارف چودھری اور پروفیسرڈاکٹرجاویداقبال ندیم کی تھی جس کو انھوںنے خوب صورتی سے انجام دیا،ان کی رس بھری گفتگونے محفل کو کشت زعفران بنائے رکھا۔جن شخصیات اپنے خیالات کااظہار کیا ان میں سینئر صحافی مجیب الرحمان شامی،سعیدآسی، سجادمیر،قمرالزمان خان،انوارالحسن کرمانی، آصف تنویر،شہزادرفیق،مسعوداحمدفریدی،جسٹس حسنات احمد خاں ، بریگیڈئیرظاہرخان،ڈاکٹراکرم عتیق، رئوف چودھری،نسیم بلوچ،حق نوازسگلہ،چودھری ریاض مسعود،امتیازبٹ اور پروفیسرڈاکٹرممتازاحمد کے علاوہ بہت سے لوگ شامل ہیں۔جب کسی تاریخی ادارے میں گزرے مہ وسال کی یادداشتیں مرتب ہوتی ہیں توماضی کے سنہری ایام کی مقدس یادیں دلوں میں ہجوم کرتی ہیں۔گورنمنٹ کالج ساہیوال کے ماضی کے چنداوراق دیکھیے،یہ کسی اورہی دنیا کی کہانیاں لگتی ہیں، بقول صابرلودھی : ’’(پروفیسر) بھلی صاحب کسی اور ہی دنیا کے انسان تھے۔سگریٹ کا طویل کش لگا کر اپنی کلاس میں داخل ہوتے تھے اور شیکسپیئر اور ملٹن کی روح تک اتر جاتے تھے۔سگریٹ کے کش کا اثر تیس پینتیس منٹ رہتا۔جونہی طلب بڑھتی ان کا لیکچر پھیکا پڑ جاتا، اس لیے وہ اکثر دو تین منٹ پہلے کلاس چھوڑ دیتے۔کچھ ایسی ہی کیفیت تاریخ کے پروفیسر عبدالمالک صاحب کی تھی۔جو طلبہ ان سے چند دن تاریخ پڑھ لیتے، انہیں لٹریچر میں بھی لطف آتا۔شرط یہ تھی کہ وہ ذرا ترنگ میں ہوں ’’اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے‘‘ َ ۔ڈاکٹرخورشیدرضوی کے مطابق:’’سالِ سوم کا امتحان آیا تو اس کے دوران ہی مَیں تشویش ناک طور پر بیمار ہو گیا۔ سخت پریشان ہو کر پرنسپل صاحب کی کوٹھی پر جا پہنچا اور بر آمدے میں لگا ہوا گھنٹی کابٹن دبا دیا۔ میاں صاحب سنجیدہ چہرے اور سفید کنپٹیوں کے ساتھ، جو کانوں سے اوپر ہی ختم ہو جاتی تھیں،برآمدے میں آئے اور انگریزی میں میری آمد کاسبب پوچھا۔ میں نے احوال بیان کیا تو وہ فی الفور متفکر نظر آئے اور میری تکلیف کی تفصیلات پوچھنے لگے۔ میں سٹپٹا گیا کیوں کہ میں تو صرف یہ معلوم کرنے کے لیے آیا تھا کہ میرے امتحان کا کیا ہو گا۔ لیکن اب میاں صاحب کا ایک مختلف روپ میرے سامنے تھا۔''Forget about the Exam'' انہوں نے تحکمانہ اند از میں فرمایا'' میں ابھی سول ہسپتال فون کرتا ہوں۔ ’’وہاں جاؤ اور معائنہ کروا کے آؤ''۔ اس زمانے کے سادہ لوح طالب علم کے لیے یہ بھی ایک امتحان سے کم نہ تھا۔ مگر دم مارنے کی کسے مجال تھی۔ انہوں نے مجھے تانگے میں لدوا کر ہسپتال بھجوا دیا۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ ان کی پرنسپلی کا رعب شفا خانے میں بھی چلتا ہے۔ ایک سینئر ڈاکٹر درانی صاحب اور ایک کوئی اور ڈاکٹر صاحب برآمدے میں کھڑے ہیں کہ گورنمنٹ کالج سے ایک لڑکا آرہا ہے۔ جاتے ہی مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا اور جب میں واپس میاں صاحب کے پاس رپورٹ دینے پہنچا تو انہیں پہلے ہی ٹیلی فون پر رپورٹ مل چکی تھی۔‘‘ بقول قاسم سلیم :’’سیاسیات کے پروفیسرصاحب ایک روز کنٹرولر امتحانات کے کمرے میں تیزی سے داخل ہوئے۔ کمرے کو اندر سے کنڈی لگائی اور دونوں ہاتھوں سے ماتھا پکڑ کر سی پر ڈھیر ہوگئے۔ خیر باشد صاحب؟حاضرین حیران و پریشان۔پانی کے دوگلاس غٹا غٹ چڑھائے اور جب اوسان بحال ہوئے تو بولے:یارو! آج حد ہی ہوگئی۔ میں کلاس میں پہنچا اورخوش ہوا کہ پوری کلاس موجود ہے۔ بغیر کسی تمہید کے اپنا لیکچر یوں شروع کیا! بچو کل ہم حاکمیت اعلیٰ پر گفتگو کررہے تھے۔میں وہیں سے بات جاری رکھوں گا۔ اتنے میں دو طالب علم کھڑے ہوگئے۔ سر!! میں نے کہا بیٹھ جاؤ! پہلے میں لیکچر مکمل کرلوں۔ پھر سوال کرنا۔ ایک اور نے اٹھ کر کچھ کہنا چاہا۔ میں نے اسے بھی یہی کہا اور اپنا لیکچر پورا کیا۔ پیریڈ ختم ہونے میں پانچ منٹ باقی تھے کہ میں نے سوال کرنے کی اجازت دی۔ بہ یک وقت تین طالب علم اٹھے اور کہا: سر! ہم تو اکنامکس کے طالب علم ہیں۔آپ کی سیاسیات کی کلاس تو ساتھ والے کمرے میں ہے۔‘‘ایسے واقعات اب مل بھی جائیں گے لیکن ایسی شخصیات کہاں سے میسر آئیں گی۔بقول عزیز حامدمدنی:
وہ لوگ جن سے تری بز م میں تھے ہنگامے
گئے توکیا تری بزمِ ِخیال سے بھی گئے؟
٭…٭…٭