تاو¿ مذہب کی قدیم روایات کے مطابق اژدھے متبرک سمجھے جاتے تھے۔ ان کا نظریہ تھا کہ شیرکی دھاڑ، جنگل کی شان سمجھی جاتی ہے۔ اسی طرح اژدھے کی پھنکار دشمنوں کے لئے چیلنج ہے۔ یہ اصول ریاستوں پر اس طریقے سے سے لاگو کیا جا سکتا ہے۔ ریاست کی دھاڑ اور پھنکار سے اردگرد کی ریاستیں اس امر سے آگاہ ہوں کہ ان کی سازشوں اور جارحانہ کارروائیوں کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ مشہور ادیب ممتاز مفتی نے لکھا کہ کسی بستی کی سرحد پرایک اژدھا رہا کرتا تھا۔ بستی والے اس کی دہشت سے بہت پریشان تھے۔ انہوں نے سوچا کہ کسی ولی اللہ کے پاس جاکر سارا مسئلہ گوش گزارکیا جائے۔ اس ولی اللہ نے اژدھے کو طلب کیا اور کہا اے ناہنجار تو بستی والوں پر اپنی دہشت کیوں طاری کرتا ہے ان کو پریشان نہ کر۔ کچھ دنوں بعد جب ولی اللہ کا اس بستی سے گزر ہوا تو اس نے دیکھاکہ بستی کے لوگ اس اژدھے کے ساتھ کھیل رہے اور اسے دُم سے گھسیٹ رہے ہیں۔ ولی اللہ کو اژدھے کی حالت پربڑا ترس آیا اور اژدھے کو اپنے پاس بلابھیجا اژدھے نے کہا اے نیک بزرگ میں نے تیرا کہا مانا اور اب تو نے اپنی آنکھوں سے دیکھاکہ بستی والوں نے میرا کیا حشر کر دیا۔ ولی اللہ نے کہا کہ میں نے تمہیں بستی والوں کو تنگ کرنے سے منع کیا تھا یہ نہیں کہا تھا کہ پھنکارنا ہی بند کردے۔ شبلی نعمانی کے بقول قوموں کی صفت سے بہادری اور خودداری جیسے عناصر کونکال دیا جائے تو ان کی حالت ان ریاستوں کی سی ہو جاتی ہے یا بقول ممتاز مفتی اس اژدھے کی مانند ہو جاتی ہے جس کو کو دُم سے پکڑ کر ہر کوئی گھسیٹتا پھرے۔ پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے امکانات کیا سامنے آئے کہ پاکستان پر ڈیفالٹ ہونے کی صورت میں بین الاقوامی شرائط کا پلندہ پہلے ہی سامنے آ گیا اور یہ شرائط سراسر اس خارجہ پالیسی کے خلاف ہیں جو ہم نے پاکستان کی بقا اورسالمیت کے لئے طے کی تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے محرکات ہیں جنہوں نے موجودہ حکومت کے آتے ہی تیزی سے ملک کو دیوالیے کی طرف دھکیلا۔ ایک تصور تو یہ بھی تھا کہ تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت جو کہ منجھے ہوئے سیاستدانوں پر مشتمل ہے کوئی ایسا حل ڈھونڈے گی کہ مصنوعی سانسیں لیتی ہوئی معیشت کو سنبھالا ملے گا لیکن ہم سیاست کو اس مقام پر لے گئے کہ مقبولیت پلیٹ میں رکھ کر عمران خان کو دیدی۔ آرمی چیف ،آرمی چیف کے کھیل نے واضح کر دیا کہ ہماری قوت فیصلہ کی صلاحیت کس قدر کمزور ہے۔ کسی نے لکھا کہ اس کھیل میں ہماری سیاسی چولیں ہل کے رہ گئیں اور آج پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے امکانات نوے فیصد ہو گئے اور معاشی پسماندگی اور غربت کی شرح اتنی بلند ہوئی کہ بجلی کی قیمتوں میں تین گنا اضافے اور مہنگائی کے ہاتھوں بلبلاتے عوام یہی دہائی دیتے نظر آتے ہیں ”مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا“۔ ابھی تک تیرہ جماعتی حکومت کی جانب سے کوئی ایسا فارمولا سامنے نہیںآ سکا جو ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کا سبب بنتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بحران سے نکلنے کا کیا حل ہے۔ آنے والا ہر دن تذبذب، بے یقینی اور تیزی سے بڑھتے ہوئے انتشار کی طرف دھکیل رہا ہے۔ ہمارے ریزروز دن بدن کم ہو رہے ہیں، ہماری جی ڈی پی کی شرح اس مقام پر آ گئی ہے کہ ہم مزید قرضہ نہیں لے سکتے۔ لانگ ٹرم اصلاحات کے لئے ضروری ہے کہ حکومت اپنے پانچ سال پورے کرے اور اس کے لئے واحدراستہ الیکشن ہیں، جو کسی بھی حکومت کو یہ موقع دیں کہ وہ یکسوئی سے کام کر سکے۔ کولیشن حکومت کے پاس وقت کم ہے اور غیر یقینی زیادہ ، ہمیں ملکی استحکام اور معاشی استحکام کے لئے وہ راستہ اپنانا ہے جو ملکی مفاد کا راستہ ہے۔ ہمیں اس وقت سیاسی استحکام، بروقت فیصلے، بغض سے پاک سیاست اور چارٹر آف اکانومی کی ضرورت ہے۔ ایک کہاوت ہے کہ دو آدمی کسی بورڈ پر جھگڑ رہے تھے ایک کا خیال تھا کہ بورڈ سرخ ہے دوسرے کا خیال تھا کہ ہرا ہے ایک شخص کا ادھر سے گزر ہوا تو اس نے کہا کہ کیوں لڑتے ہو، بورڈ ایک طرف سے سرخ اور دوسری طرف سے ہرا ہے۔ ہم خودغرضی کی پٹی اتار کر دیکھیں تو ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ ہماری منزل وہ دیانتدار قیادت ہے جس کا خواب قائد اور اقبال نے دیکھا تھا۔
٭....٭....٭