آنکھوں ،گلے اور پھیپڑوں کے امراض کا باعث سموگ


سموگ
ڈاکٹر نصراللہ خان
 سردی کے آغاز کے ساتھ ہی ملک کے مختلف حصوں میں سموگ کی شکایات بڑھنے لگی ہیں۔ 
 شہری علاقوں میں سموگ پیدا ہو نے کی ایک سے زیادہ وجوہات ہیں۔تی ہے۔جن علاقوں میں انڈسٹری کی بھرمار ہوتی ہے،سردیوں میں ہوا  کے ایک جگہ منجمد ہوجانے سے کئی کئی دن تک زمینی فضا آلودہ رہتی ہے جس سے سموگ جنم لیتی ہے ۔سموگ جسے عام طور پر انڈسٹریل سموگ بھی کہا جاتا ہے زمینی فضا کی ایک دبیز تہہ ہے اور یہ اس وقت بنتی ہے جب فضا میں کارخانوں سے زیادہ سلفر والے کوئلے کو جلانے سے آلودگی زیادہ ہوجاتی ہے۔
 لاہور میں پیدا ہونے والی سموگ میں انڈیا سے آنے والی ہواؤں کا بھی اثر ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے ساتھ آلودہ ہوائیںلے کر آتی ہیں۔سرحدی علاقوں میں فصلوں کی باقیات کو آگ سے لگا کر جلانے سے اس کا دھواں پاکستان آجاتا ہے۔پاکستان میں2006 ء ک بعد سموگ نے سر اٹھانا شروع کیا ہے۔
ویسے تو فوگ کا انسانی جسم پہ کوئی نقصان نہیں ہے لیکن سموگ کی صورت میں یہ آنکھوں اور پھیپھڑوں پر حملہ آور ہوتی ہے۔ لاہور جو پاکستان اور شاید دنیا میں آلودہ ترین شہروں میں ایک نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔یہاں سموگ کا سب سے زیادہ اثر ہوتا ہے۔ پاکستان میں اس سال سیلاب نے جس طرح تباہی مچائی ہے اور اب آلودہ پانی ہر جگہ نظر آرہا ہے اس کی وجہ سے اس سال سموگ کا حملہ شدت اختیار کرے گا۔ 
سموگ کے خطرات اور نقصانات :
ہر سال دنیا بھر میں ستر لاکھ کے قریب لوگ سموگ کی وجہ سے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو کر مر جاتے ہیں۔فضا میں سلفیٹ اور کاربن مونو آکسائیڈ کی بڑھتی ہوئی مقدار زمین پر بسنے والے انسانوں کے لیے پھیپھڑوں اور دل کے علاوہ جلد اورگلے کو متاثر کر ہی ہے۔یہ بزرگ افراد، حاملہ خواتین اور بچوں میں مختلف طبی مسائل پیدا کر رہی ہے۔
 سموگ کو  زمین کے قریب اوزون کی ہی ایک تہہ شمار کیا  جاتا ہے۔جس میں  کاربن ڈائی آکسائیڈ،کاربن مونو آکسائیڈ،نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ اور سلفر ڈائی آکسائیڈ  بھی مل جاتی  ہے۔ویسے تو زمین سے بہت اوپر اوزون ہماری صحت کی حفاظت کرتی ہے اور جلد کے کینسر سے بچاتی ہے لیکن  زمین کے قریب یہ صحت کے لیے نقصان دہ بھی ہے کیونکہ یہ آلودہ ہوتی ہے۔
دنیا میں سموگ کا لفظ پہلی مرتبہ 1905 میں ڈاکٹر ہنری انتوین نے استعمال کیا جب انھوں نے سموک اور فوگ کو اکٹھا کیا۔پھر  26 جولا1943 میں لاس اینجلس ٹائمز نے اس لفظ کا استعمال کیا جب لاس اینجلس میں انڈسٹریل انقلاب کے نتیجے میں پیدا ہونے والی فضا ئی آلودگی کے آنے والے طوفان نے کھلبلی مچائی۔سموگ بنیادی طور پر دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔سموک مطلب دھواں اور فوگ مطلب دھند ہے۔سردیوں کی سموگ کو انڈسٹریل  یا لندن کی سموگ بھی کہتے اس کے علاوہ گرمیوں میں بھی سموگ ہو سکتی ہے جسے فوٹو کیمیکل یا لاس اینجلس سموگ کہتے۔اس کا رنگ براؤن ہوتاہے۔ابتداء میں لاس اینجلس کے لوگوں نے سمجھا کہ ان پر کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ ہوگیا ہے۔یہ بنیادی طور پر آٹو موبائل کی گیسز سے سورج کی روشنی میں پیدا ہونے والی آلودگی ہے جو گرمیوں میں بھی  بنتی ہے۔ 
1948میں ڈونورا سموگ جس سے بیس لوگوں کی ہلاکت بھی ہوئی تھی اور کافی لوگوں کو فضائی آلودگی سے مسائل بھی پیدا بھی ہوئے تھے۔اسی طرح دسمبر 1952 میں لندن میں  بھی سموگ کا ایک طوفان آیا۔جو چار روز تک جاری رہا۔جسے ’’گریٹ سموگ ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔لندن میں آلودہ دھند  سے بارہ ہزار افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔فصلیں تباہ ہو گئیں۔ تب برطانیہ میں 1956 میں کلین ایئر ایکٹ لایا گیا۔جس کے تحت ملک میں کوئلے اور لکڑی کے استعمال پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی اور دھواں پیدا کرنے والی فیکٹریاں شہر سے باہر منتقل کر دی گئیں۔  
1987 میں زہریلی سموگ سے گیارہ سو لوگ سانس نہ لے سکے اور جان کی بازی ہار گئے۔  پاکستان میں سموگ کا زیادہ حملہ سردیوں میں ہوتا ہے اور شدید سردیوں کے دنوں میں یہ اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ نہیں سجھائی دیتا۔سموگ کا تعلق پیدائش پر نقائص اور کم پیدائشی وزن سے ہے۔ حاملہ خواتین جو سموگ کا شکار ہوئیں ان کے بچے پیدائشی نقائص کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں۔ 
مزید برآں، مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ سموگ کے 5 مائکرو گرام تک کے ذرات کا سامنا کرنے  کے نتیجے میں پیدائش کے وقت بہت کم وزن کے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔
سموگ کا سب سے پہلا حملہ آنکھوں پر ہوتا ہے۔آنکھوں میں جلن کا احساس ہوتا ہے۔اس کے علاوہ گلے کی خراش،پھیپھڑوں اور خاص طورپر دمہ کے مریضوں کے لیے مہلک ہے۔جلد کی الرجی کا سبب بنتی ہے
سموگ میں کمی کی تدابیر:
دنیا بھر میں ایئرکوالٹی انڈیکس کا استعمال کیا جاتا ہے تاکہ ہوا میں آلودگی کی شرح کو جانچ کر ماحول کو صاف رکھا جا سکے۔دو سو پوائنٹس  تک کو نارمل دو سو سیسے تین سو پوائنٹس تک کو قابل قبول گنا جا تا ہے۔تین سو سے چار سو تک کو پریشان کن اور چار سو سے پانچ سو پوائنٹس کو خطرناک سمجھا جاتا ہے۔اگر ہم گیس کی بجائے بجلی پر چلنے والے آلات کا استعمال کریں۔تو آلودگی کو کم کیا جا سکتا۔ دھوئیں والی گاڑی ٹھیک کروانا اور وقتاً فوقتاً تیل بدلتے رہنا، ٹائروں کی سطح متوازن رکھنا ضروری ہے۔اسی طرح بھٹہ خشت کو سردیوں میں یا تو بند کروا دیا جاتا ہے یا ان کو گنجان آباد علاقوں سے  مستقلاًختم کر نا ضروری ہے ۔گھر سے نکلتے وقت ماسک اورچشمے کا استعمال جلن سے بچاتا ہے ،تمباکو نوشی ترک یا کم کر دیں،زیادہ سے زیادہ پانی یا چائے اور قہوہ کا استعمال کریں۔کھڑکیوں اور دروازے کے کھلے حصوں پر گیلا کپڑا یا تولیہ رکھیں۔

ای پیپر دی نیشن