گذرے چند دنوں میں بلاول بھٹو کی تقریر اور آصف علی زرداری کا انٹرویو موضوع بحث ہے۔ ٹاک شوز، کالمز، سیاسی حلقوں اور عوامی سطح ہر کوئی اپنے اپنے علم، معلومات، سیاسی سوچ اور پسندیدگی کو سامنے رکھتے ہوئے بات کر رہا ہے۔ یہ باتیں بھی ہو رہی ہیں کیا سابق صدر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری میں شدید اختلافات ہیں، دونوں کے سوچنے کا انداز مختلف ہے اور دونوں اپنے اپنے انداز میں پاکستان پیپلز پارٹی کو چلانا چاہتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی ایسا ہے، کیا واقعی پیپلز پارٹی میں بھی ایک فارورڈ بلاک بنا ہوا ہے اور بلاول بھٹو زرداری الگ سوچ کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہ صورت حال خاصی دلچسپ ہے۔ کیونکہ آئندہ عام انتخابات میں کچھ زیادہ وقت نہیں ہے۔ ان حالات میں کیا پاکستان پیپلز پارٹی اندرونی طور پر ایسے اختلافات کی متحمل ہو سکتی ہے۔ کیا آصف علی زرداری ایسے حالات کی طرف بڑھ سکتے ہیں کہ ان کا اکلوتا بیٹا ہی ناراض ہو کر الگ سیاست کرتا رہے۔یہ بحث شروع اس طرح ہوئی کہ چترال میں بلاول بھٹو زرداری نے ایک جلسے سے خطاب کیا اور انہوں نے آصف علی زرداری کے سوا دیگر بزرگ سیاستدانوں کے نام لے کر انہیں گھر بیغھنے کا مفت مشور بھی دیا۔بلاول بھٹو زرداری کہا کہ بزرگ سیاستدان گھر بیٹھیں اور ملک کیلیے دعا کریں۔ پرانے سیاستدانوں سے مطالبہ کر رہا ہوں کہ سیاست چھوڑ دیں، یہ میرا نہیں، نوجوانوں کا مطالبہ ہے، بزرگوں کا احترام کرتا ہوں جب ملکی صورتحال کو دیکھتا ہوں تو دکھ ہوتا ہے۔ پرانے سیاستدانوں کی سیاست سے تکالیف کم نہیں ہوں گی، چاہتا ہوں عوام کے مسائل حل ہوں، پرانے سیاستدان عوام کی تکالیف میں اضافہ کریں گے، جیسی سیاست ہو رہی ہے اس میں مسائل حل نہیں ہوں گے۔ بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں کام نہیں کرنا چاہتیں انہوں نے ن لیگ اور پی ٹی ا?ئی کو نشانے پر رکھتے ہوئے کہا کہ دونوں انتقامی سیاست کر رہی ہیں۔ ملک جس سمت چل رہا ہے اس سے مسائل میں اضافہ ہو گا۔ یہ وہی سیاست کر رہے ہیں جس نے میرے ملک کو تباہ کیا ہے۔تمام مسائل کا حل ہمارے منشور میں موجود ہے، ہرحکومت میں مہنگائی اور بیروزگاری کا مقابلہ کیا ہے۔بلاول بھٹو زرداری کے یہ الفاظ تھے جس کے بعد سیاسی حلقوں میں یہ بحث شروع ہوئی کہ آصف زرداری اور بلاول بھٹو میں شاید اختلافات ہیں۔ اگر ان کے اس بیان کو سیاسی بیان بھی سمجھا جائے تو یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ بہت سے بزرگ بلاول صاحب کی اپنی جماعت میں بھی موجود ہیں اگر وہ پرانے سیاستدانوں سے تنگ ہیں تو سب سے پہلے اپنی جماعت کے بزرگوں کی جبری ریٹائرمنٹ کا بندوبست کریں پھر دوسری جماعتوں کے بزرگوں کو مشورے دیں۔ لازم نہیں کہ ہر بزرگ کے گھر جانے کا وقت ہے ہم کسی کی سیاسی بزرگی سے فائدہ بھی تو اٹھا سکتے ہیں۔ جوانوں کا ایک دور تازہ تازہ گذرا ہے اور اس دور جوانی میں ہونے والی تباہی کے بعد کیسے براہ راست اور آنکھیں بند کر کے بلاول بھٹو زرداری کی اس پیشکش پر غور کیا جا سکتا ہے۔ بات صرف بزرگوں کی ہی نہیں ہے ناتجربہ کار اور ناسمجھ نوجوانوں کی بھی ہے۔ نوجوان سیکھنا نہیں چاہتے اور بزرگ کسی کو سکھانا نہیں چاہتے۔ بنیادی طور پر بزرگوں اور جوانوں کو کسی درمیانی راستے کا انتخاب کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔ بات تو بلاول بھٹو زرداری نے بزرگوں کو گھر بٹھانے کے حوالے سے کی اس کے جواب میں سابق صدر آصف علی زرداری نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بلاول بھٹو کو ناتجربہ کار قرار دیتے ہوئے اپنی طرف سے تو بات ختم کی لیکن ان کے اس جواب سے ایک اور سیاسی بحث شروع ہوئی اور بلاول بھٹو زرداری کی دبئی روانگی اور ایکس پر فوٹو کی تبدیلی سے بھی کئی سوالات پیدا ہوئے۔ آصف علی زرداری نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ جو پیپلزپارٹی الیکشن لڑے گی اس کا ٹکٹ جاری کرنے کا اختیار میرے پاس ہے، بلاول کو جو ٹکٹ جاری ہوگا اس پر بھی دستخط آصف زرداری کے ہوں گے۔بلاول ابھی زیر تربیت ہے، نئی پود کی سوچ یہی ہے کہ بابا کو کچھ نہیں پتا۔اب دونوں کے بیانات کو لوگ اپنے اپنے انداز میں دیکھ رہے ہیں لیکن جب میں ان بیانات بارے سوچتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید باپ بیٹا میاں برادران سے متاثر ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ اب وہ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف والی سیاسی حکمت عملی کے تحت آگے بڑھ رہے ہیں۔ میاں نواز شریف کا مختلف حوالوں سے موقف سخت رہتا ہے لیکن میاں شہباز شریف نسبتا نرم مزاج ہیں اور معاملات کو مفاہمت اور مل جل کر چلاتے ہیں۔ میاں نواز شریف کی وجہ سے اختلافات پیدا ہوتے ہیں اور میاں شہباز شریف اختلافات کو ختم کرنے کے لیے کردار ادا کرتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری اب اسی حکمت عملی کے تحت سیاست کر رہے ہیں۔ جہاں تک تعلق دونوں کے مابین اختلافات کا ہے اس حوالے سے یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ فی الحال ایسا کچھ نہیں ہے یہ ساری بیان بازی لوگوں کی توجہ تقسیم کرنے یا توجہ حاصل کرنے یا پھر خود کو ایک جمہوری جماعت ثابت کرنے کی حد تک تو ٹھیک ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔بلاول بھٹو اپنی سیاست کی حد تک تو بہت سمجھدار ہیں اور آصف علی زرداری سے تو سب واقف ہیں وہ گھاٹے کا سودا کرنے کے قائل ہی نہیں ہیں تو اس اہم وقت میں وہ کیسے اپنے اکلوتے بیٹے سے سیاسی علیحدگی کا سوچ سکتے ہیں۔ سو حالات و واقعات، مشاہدات اور سیاسی مفادات کو دیکھتے ہوئے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ دونوں سیاسی اعتبار سے جگہ حاصل کرنے اور اہمیت برقرار رکھنے کے لیے بہتر سوچ کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے ق لیگ کی حکومت ختم ہونے کے بعد پانچ سال وفاق کو سنبھالا اس دوران ملک کے مسائل میں بیپناہ اضافہ ہوا آج بلاول بھٹو سندھ کی ترقی کا حوالہ تو نہیں دیتے لیکن دیگر صوبوں میں رہنے والوں کو بتا رہے ہیں کہ انہیں موقع دیا جائے وہ عوامی خدمت کے نئے ریکارڈ قائم کر دیں گے۔ اگر ان کی جماعت میں اتنی اہلیت ہوتی تو اور کچھ نہیں کم از کم پندرہ برسوں میں سندھ کی حالت تو بدل جاتی وہاں تو لوگوں کی زندگیوں میں سکون آتا لیکن اس معاملے میں پاکستان پیپلز پارٹی مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ اب ان کے پاس سندھ کی سیٹوں اور بیانات کے سوا کچھ ایسا نہیں کہ عوام کے سامنے رکھیں۔ انہیں پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں بھی تعمیری کام کی ضرورت ہے۔
آخر میں امیر السلام ہاشمی کا وہ کلام جو انہوں نے علامہ اقبال سے نہایت معذرت کے ساتھ لکھا
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
دہقان تو مرکھپ گیا، اب کس کو جگاؤں
ملتا ہے کہاں خوشہ گندم، کہ جلاؤں
شاہیں کا ہے گنبدِ شاہی پہ بسیرا
کنجشکِ فرومایہ کو اب کس سے لڑاؤں
مکاری و عیاری و غداری و ہیجان
اب بنتا ہے ان چار عناصر سے مسلمان
قاری اسے کہنا تو بڑی بات ہے یارو
اس نے تو کبھی کھول کے دیکھا نہیں قرآن
بیباکی و حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن
مکاری و روباہی پہ اتراتا ہے مومن
جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہو
وہ رزق بڑے شوق سے کھاتا ہے مومن
شاہیں کا جہاں آج ممولے کا جہاں ہے
ملتی ہوئی ملا سے ، مجاہد کی اذاں ہے
مانا کہ ستاروں سے بھی آگے ہیں جہاں اور
شاہیں میں مگر طاقت پرواز کہاں ہے؟
کردار کا، گفتار کا، اعمال کا مومن
قائل نہیں، ایسے کسی جنجال کا مومن
سرحد کا ہے مومن، کوئی بنگال کا مومن
ڈھونڈے سے بھی ملتا نہیں قرآن کا مومن
ہر داڑھی میں تنکا ہے، ہر آنکھ میں شہتیر
مومن کی نگاہوں سے اب بدلتی نہیں تقدیر
توحید کی تلواروں سے خالی ہیں نیامیں
اب ذوقِ یقیں سے نہیں کٹتی، کوئی زنجیر
دیکھو تو ذرا، محلوں کے پردوں کو اٹھاکر
شمشیر و سِناں رکھی ہیں طاقوں میں سجا کر
آتے ہیں نظر مسندِ شاہی پہ رنگیلے
تقدیرِ امم سوگئی، طاؤس پہ آکر
مرمر کی سلوں سے کوئی بے زار نہیں ہے
رہنے کو حرم میں کوئی تیار نہیں ہے
کہنے کوہر شخص مسلمان ہے لیکن
دیکھو تو کہیں نام کو کردار نہیں ہے
محمودوں کی صف آج ایازوں سے پرے ہے
جمہور سے سلطانی جمہور ورے ہے
تھامے ہوئے دامن ہے، یہاں پر جو خودی کا
مر مر کے جئے ہے، کبھی جی جی کے مرے ہے
پیدا کبھی ہوتی تھی سحر، جس کی اذاں سے
اس بندہ مومن کو اب میں لاؤں کہاں سے
آصف زرداری اور بلاول بھٹو آمنے سامنے؟؟؟؟
Nov 26, 2023