ڈوپ ٹیسٹ اور انتخابی امیدوار

اگر پاکستان میں سیاست کو ہی قومی کھیل تصور کر لیا گیاہے تو پھر کھلاڑیوں کی طرح تمام سیاست دانوں کے ڈوپ ٹیسٹ بھی لازمی قرار دیے جائیں۔ سیاست کے میدان میں اترنا کھیل کے میدان میں اترنے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ سیاست دانوں نے اسمبلیوں میں جا کر ملک اور قوم کی تقدیر کے فیصلے کرنے ہوتے ہیں ، اس لیے ان کا ہر وقت ہوش و حواس میں ہونا انتہائی ضروری ہے۔ قوم کیسے کسی ایسے انسان کو اپنی تقدیر کے فیصلے کا اختیار تھما دے جو ممنوعہ مشروب پیتا ہو یا نشہ آور ڈرگز لینے کا عادی ہو، جس کو اپنے دماغ پر کنٹرول نہ ہو اسے قیمتی ووٹ دے کر کیسے وطن عزیز کی قومی یا صوبائی اسمبلی میں بھیجا جا سکتا ہے جہاں بیٹھ کر انھوں آئین اور قانون سازی کرنی ہوتی ہے۔ 
نشہ آور اشیاء تو ہمارے مذہب میں ممنوع و حرام ہیں۔ اب خدا سے بہتر انسانی سسٹم سے کون آگاہ ہو سکتا ہے جس نے خود انسانی مینو فیکچرنگ کی ہے۔ یقینا کسی بھی قسم کا نشہ اتنا خطرناک ہے کہ اللہ کی ذات خود منع کر رہی ہے پھر انسان کون ہوتے ہیں کہ اسے کوئی جائز اور درست عمل قرار دے کر اس پر آنکھیں بند کر لیں اور کسی ایسے شخص کو ووٹ دے دیں جو چھپ کر یا کھلے عام شراب پیتا ہو یا کوئی اور نشہ کرتا ہو۔ اسلام میں تو خدا ایمان والوں اور مسلمانوں کو منع کر رہا ہے جبکہ خدا کے اس حکم کو تو غیر مذاہب کے لوگ بھی تسلیم کرتے ہوئے اپنے کھلاڑیوں اور سیاست دانوں کے لیے نشہ آور اشیاء سے اجتناب کو ضروری قرار دیتے ہیں۔
یورپی ممالک میں ان کی قوموں کے ہیرو سیاست دان نہیں بلکہ موجد ، کھلاڑی اور اداکار ہوتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں پاکستان میں صرف سیاست دانوں کو ہی ہیرو تصور کر لیا گیا ہے ، اسی لیے تمام ملکی میڈیا اور سوشل میڈیا پر ہر وقت سیاست اور سیاست دان ہی چھائے دکھائی دیتے ہیں۔ سیاست دانوں کی ہر خبر بریکنگ نیوز ہے اور ہر ٹاک شو سیاست پر ہے۔ اتنی ریٹنگ پاکستان میں کسی گیم کے ٹاک شو کی نہیں آتی جتنی سیاسی ٹاک شو پر حاصل ہو رہی ہوتی ہے۔ بازار ہوں، گھر ہوں، دفاتر ہوں یا فیکٹری کارخانے ہر جگہ ہر وقت عوام میں بھی سیاسی گفتگو ہی زیر بحث ہوتی ہے کیونکہ پوری قوم کو ہی ان سیاست دانوں نے اپنی سیاست کے پیچھے لگا رکھا ہوا ہے لوگ اپنے گھروں اپنے مسائل اپنے حالات کو اتنا ڈسکس نہیں کرتے جتنا سیاست کو اور سیاست دانوں کو کرتے ہیں۔ 
پاکستان میں ہر کام کا تصور اب سیاست دانوں سے کیا جاتا ہے۔ ملک کی قانون سازی ہو یا گلی نالی کا مسئلہ ، مہنگائی کا ایشو ہو یا اولاد کی نوکری اور روزگار کا مسئلہ، تھانہ کچہری کے معاملات ہوں یا گھروں اور برادریوں کے تنازعات ، سرکاری دفاتر میں کوئی کام ہو یا ٹرانسپورٹ اور سڑکوں کے مسائل ہر جگہ ہر وقت صرف سیاست دان ہی مرکز و محور ہے چاہے وہ اسمبلی کے اندر ہو یا اسمبلی کے باہر ۔ ہر جادو کی چھڑی اور الہ دین کا چراغ صرف سیاست دان کے ہاتھ میں ہی دکھائی دیتا ہے۔ جب سب کچھ صرف سیاست دان ہی کے ہاتھ میں ہے تو پھر اتنی اہم ترین ذمہ داری پر فائض ہونے والے کے ہوش و ہواش پرکھنا بھی ایک اہم ترین فریضہ ہے، لہٰذا الیکشن کمیشن آف پاکستان پر لازم ہے کہ وہ فوری طور پر اپنے ضابطہ اخلاق کے فارم میں ترمیم کرے اور الیکشن کے امیدواروں کے لیے ڈوپ ٹیسٹ کو لازمی قرار دیتے ہوئے یہ قانون سازی کرے جس میں ہر امیدوار یہ حلف دے کہ وہ کسی قسم کے نشہ کا عادی نہیں ہے۔ اس کے بعد عوام بھی کسی انتخابی امیدوار کے کاغذات نامزدگی پر اس بنیاد پر اعتراضات داخل کریں کہ مذکورہ امیدوار شراب پیتا ہے یا کوئی نشہ کرتا ہے اس لیے اس کے کاغذات نامزدگی مسترد کیے جائیں۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن