فائنل راﺅنڈ‘ اسلام آباد نہیں پہنچ سکا۔
جب تک مقابلے ہو رہے ہوں‘ اس میں ایک آدھ بازی میں ہار جیت سے لوگ بددل نہیں ہوتے مگر جب فائنل ہو اور اس میں تمام تر دعوﺅں اور کوششوں کے باوجود اگر شکست کا سامنا کرنا پڑے تو اچھے اچھوں کے ہاتھ پاﺅں پھول جاتے ہیں۔ عرق ندامت سے پیشانی بھیگ جاتی ہے۔ اب اسکے باوجود ہم جیسے لوگ یہ قسمت میں لکھا تھا کہہ کر اپنی شکست اور شرمندگی سے جان چھڑاتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ ہار کیوں ہوئی‘ غلط وقت پر غلط فیصلے کی وجہ سے ہم جیت کی مسرت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ سیاست میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ چند ماہ میں باربار اپنے رہنماءکی رہائی کیلئے جو بھی کوشش ہوئی‘ دھینگا مشتی کے باوجود وہ کامیاب نہ ہو سکی‘ اب پھر ایک مرتبہ قسمت آزمائی کیلئے فائنل راﺅنڈ کھیلا گیا۔ اس سے پہلے خوب جذباتی کیفیت پیدا کی گئی۔ جیل میں جان کو خطرہ ہے‘ علیمہ خان اور عظمیٰ خان کے بعد بشریٰ بی بی کی جانب سے بھی قیدی کی جان خطرے میں ہے‘ ان سے ملاقاتیں بند کر دی گئی ہیں‘ کئی دنوں سے انہوں نے کھانا نہیں کھایا‘ انکے چلنے پھرنے پر پابندی اور علاج نہ ہونے کا ااتنا تذکرہ ہوا کہ لوگ سوشل میڈیا کی باتوں پر یقین کرنے لگے۔ ملاقاتیوں نے قیدی کو بھی جیل میں ایسے خواب دکھائے کہ وہ بھی یقین کر بیٹھے کہ لوگ انکے اشارے پر فائنل راﺅنڈ کھیلنے کیلئے تیار ہیں۔ جیسے ہی حکم ملا تو سارا پاکستان سڑکوں پر ہوگا‘ عوام کا سیل رواں اسلام آباد آکر اڈیالہ جیل سے انہیں یوں نکال لے جائے گا‘ جیسے مکھن میں سے بال۔ مگر پارٹی میں گروپ بندی کی وجہ سے پنجاب کے رہنماﺅں کی قیادت سے دوری کے رویہ نے یہ دن دکھایا۔ انہیں مشاورت کے قابل بھی نہیں سمجھا گیا البتہ فائنل راﺅنڈ میں انہیں بھرپور تیاری کے ساتھ اسلام آباد آنے کا حکم دیا گیا۔ جیسے وہ ہاتھ باندھے تیار ملیں گے۔ جبکہ سارا شو خیبر پی کے کا ثابت کرکے قیدی کو بتایا جائیگا کہ ہم آپ کے اصل مجنوں ہیں‘ یوں فائنل راﺅنڈ ابتدائی لمحات میں ہی رنگ نہ جما سکا۔اور ہنوز اڈیالہ دور است۔ کا مرقع بن گیا
٭....٭....٭
حیدرآباد میں خواجہ سراﺅں کا ”مورت“ مارچ۔
کیا کسی شادی میں‘ مہندی میں‘ میلے میں یا محفل یاراں میں بھی شاید اتنا ہلہ گلہ ہوا ہوگا‘ جو رنگ برنگے لباس میں ملبوس میک اپ سے بھرپور سجے ہوئے چہروں اور خوبصورت بالوں کی وگیں لگائے سینکڑوں خواجہ سراﺅں نے اپنے مطالبات کے حق میں ”مورت“ مارچ سے قبل ناچ گانے کا وہ قدیم و جدید مظاہرہ کیا کہ بیلے ڈانس کرنے والے انکے سامنے پانی بھرتے محسوس ہو رہے تھے۔ مورت بنے یہ لوگ اپنی زبان میں اپنےساتھی کو کہتے ہیں جو تیار ہو کر ناچنے گانے والے اپنے کاروبار پر جاتے ہیں۔ بہرحال اس سے زیادہ کہنے کا یارا نہیں۔ ”گریہ“ عام لوگ رونے کو کہتے ہیں‘ یہ اپنی زبان میں اپنے گاہک کو کہتے ہیں۔ اب اس مارچ میں جو سینکڑوں ”گریہ“ یعنی مرد حضرات بھی شامل تھے‘ کیا ان کو خوف نہیں تھا کہ ان کو یوں میڈیا پر ”مورتوں“ کے ساتھ دیکھ کر انکے گھر والے کیا کہیں گے۔ لگتا ہے اب گریہ ہو یا مورت‘ دونوں بےخوف ہو چکے ہیں۔ اس سارے جشن کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ خواجہ سرا کہتے ہیں، انکی دوبارہ مردم شماری کرائی جائے کیونکہ جان بوجھ کر انکی آبادی کم دکھائی گئی ہے۔ ان کو تحفظ دیا جائے۔انہیں مساوی حیثیت دی جائے۔ اب اگر ایسا ہو گیا تو پھر یہ کس منہ سے خصوصی رعاتیں مانگیں گے۔ جو اب صرف تالیاں بجا بجا کر ٹھمکے لگا لگا کر وہ حاصل کر رہے ہیں۔ بہرحال پروگرام اور ریلی میں شریک لوگوں اور خواجہ سراﺅں کے چہروں پر خوشی دیدنی تھی۔ معلوم نہیں وہ اپنے پروگرام کی کامیابی پر خوش تھے یا اپنے ساتھ اتنے لوگوں کو دیکھ کر انہیں مسرت ہو رہی تھی کہ معاشرے میں اب انکی پذیرائی بڑھ رہی ہے۔ ورنہ پہلے تو انکے ساتھ کھڑے ہونے سے بھی لوگ کتراتے تھے۔ تالیاں بجا کر استقبال تو دور کی بات ہے‘ مگر اب تو یہ بھی تھانے پر حملہ کرکے اپنے ساتھیوں تک کو چھڑا لے جاتے ہیں۔ ویسے یہ جس طرح بن سنور کر اٹکھیلیاں کرتے پھرتے ہیں اس کے بعد انہیں سکیورٹی کون دے سکتا ہے۔
٭....٭....٭
صدر ٹرمپ کی کابینہ میں سر پھرے وزرا کی کثرت۔
سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جہاں ٹرمپ موجود ہوں‘ وہاں سکون سے کام ہو رہا ہو۔ انکی ساری نجی زندگی مختلف سکینڈلز سے معمور ہے تو انکی سیاست اسی طرح مختلف تنازعات سے بھری پڑی ہے۔ وہ اپنی بدزبانی سے دوسرے سیاست دانوں کو مخالفین کو منٹوں میں مشتعل کر دیتے ہیں۔ سٹیج پر خوب اداکاری کرتے‘ ہنستے گاتے رنگ جماتے ہیں۔ انکے کارکن بھی انکی طرح جوشیلے اور منہ پھٹ ہیں۔جنہیں وہ شعلہ بیاں کہتے ہیں۔ امریکی تاریخ میں پہلی بار کسی سابق صدر کے حامیوں نے تاریخی عمارت کیپٹیل ہل پر دھاوا بولا ہو اور سکیورٹی والوں کو مار پیٹ کر اندر گھس کر ٹرمپ کے نعرے لگائے اور عمارت میں توڑ پھوڑ کی ہو۔ یہ اعزاز بھی صدر ٹرمپ کو حاصل ہے کہ وہ امریکہ کے پہلے صدر بنے ہیں جو سزا یافتہ ہیں۔ انہیں شاید ووٹ بھی لوگوں نے اسی لئے دیا ہوگا کہ وہ بہادر ہیں اور امریکی خود بھی ایسے کن ٹٹوں کو پسند کرتے ہیں جو ان کی بدمعاش اور غنڈہ گردی کو برا نہ سمجھتا ہو۔ اب صدر ٹرمپ نے اپنے کابینہ کے جن ارکان کا اعلان کیا ہے‘ وہ دیکھ لیں‘ ان میں اکثریت شعلہ بیان‘ گڑبڑ پھیلانے کے ماہرین پر مشتمل ہے۔ یعنی آگ لگانے والے تو بہت ہیں‘ پانی ڈالنے والے نرم خو ٹھنڈے مزاج والے بہت کم ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ کی آئندہ حکومتی پالیسیاں کیا ہونگی اور کیسی ہونگی۔ تارکین وطن کے خلاف تو انہوں نے پہلے ہی اعلان جنگ کر دیا ہے کہ امریکہ میں کوئی غیرقانونی تارکِ وطن نہیں رہے گا۔ اب ایک طرف صدر ٹرمپ دنیا بھر میں جنگیں بند کرانے کے خوش کن بیانات دے رہے ہیں‘ دوسری طرف آگ لگانے سے بھی گریز نہیں کر رہے۔
٭....٭....٭
نہروں کی تعمیر کیخلاف پی پی‘ جے یو آئی‘ جئے سندھ‘ سندھیانی تحریک ہم آواز۔ آل پارٹیز کانفرنس میں شریک
ان جماعتوں کی بدولت کالاباغ ڈیم کی طرح اب دریائے سندھ پر نہروں کی تعمیر کا معاملہ بھی صوبائیت اور منفی سیاست کی بھینٹ چڑھ رہا ہے۔ جئے سندھ‘ سندھیانی تحریک اور اسی قبیل کی دیگر منفی قوم پرستی کے دعویدار سندھ میں شور مچا رہے ہیں کہ نہریں نکالنے سے سندھ ریگستان میں تبدیل ہوجائیگا۔ ان کا شور مچانا تو انکی برسوں پرانی منفی سیاست اور قوم پرستی کے نام پر سادہ لوح نوجوانوں کو گمراہ کرنے کا منشور ہے۔
مگر یہ جے یو آئی (ف) والوں کی باسی کڑھی میں ابال کیوں آرہا ہے۔ یہاں انکی مذہبی سیاست کیوں قوم پرستی اور منفی پراپیگنڈے کے سیلاب میں بہہ گئی۔ اب جے یو آئی اور جئے سندھ تحریک میں کوئی فرق نہیں رہ گیا۔ جئے سندھ والے تو جی ایم شاہ کے نظریات کو لے کر چل رہے ہیں‘ اسی طرح جے یو آئی بھی آج تک جمعیت علمائے ہند کی پاکستان مخالف سیاست کو سینے سے لگارہی ہے۔ اس جماعت کےوقفے وقفے سے پاکستان مخالف نظریات نکل ہی آتے ہیں۔ کبھی یہ بھارت میں اپنے بڑوں کی سیاست یعنی پاکستان کی مخالفت کا قصیدہ پڑھتے ہیں کبھی یہ خدا کا شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہ تھے کے کارنامے پر مطمئن نظر آتے ہیں۔ اب دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے منصوبے پر وہ بھی لگتا ہے جئے سندھ والوں کے ساتھ مل کر پاکستان کی خوشحالی کی راہ روکنے کے درپے ہیں۔ اس کام میں خود کو وفاق کی علامت قرار دینے والی پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت بھی پوری طرح شریک ہے جو عرصہ دراز سے سندھی عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے کبھی کالاباغ ڈیم اور اب نہروں کے مسئلے پر سیاست کر رہی ہے۔ یہ عجیب نہیں کہ اہم قومی منصوبوں پر یہ سب قوم پرست متحد ہو جاتے ہیں۔ پہلے انہوں نے اے این پی ( ولی خان ) کے ساتھ مل کرکالا باغ ڈیم کیخلاف من گھڑت طوفان نہ اٹھایا ہوتا تو آج ان نہروں کی ضرورت ہی پیش نہ آتی اور بجلی و پانی کی یہ بدترین قلت بھی نہ دیکھنا پڑتی۔ مگر کیا کریں یہ عناصر پاکستان کو ترقی کرتا دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔
منگل‘ 23 جمادی الاول 1446ھ ‘ 26 نومبر2024
Nov 26, 2024