خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں متحارب قبائل میں گزشتہ دو ہفتے سے جاری جھڑپوں میں مسافر بسوں پر فائرنگ کے واقعہ کے بعد مزید شدت پیدا ہو گئی ہے اور ان جھڑپوں کے نتیجہ میں اب تک دونوں جانب سے ایک سو کے قریب افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ بسوں پر فائرنگ سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 49 تک جا پہنچی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ایک قبیلے نے دوسرے قبیلے کے گاﺅں پر حملہ کرکے وہاں مکانوں اور دکانوں کو جلا کر خاکستر کر دیا ہے جبکہ متعدد پٹرول پمپ بھی نذر آتش کر دیئے گئے ہیں۔ اس وقت پورے علاقے میں انٹرنیٹ اور موبائل سروس بند ہے اور گاڑیوں پر فائرنگ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ضلع کرم میں امن و امان کی مخدوش صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس امر پر زور دیا ہے کہ وہاں شہریوں کی جان و مال کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ انکے بقول کرم بدامنی کی آگ میں جل رہا ہے اور خیبر پی کے حکومت لاپتہ ہے جو عوام کے تحفظ کی ذمہ داریاں ادا کرنے میں قطعی ناکام ہو چکی ہے۔
اس وقت ضلع کرم میں جس طرح متحارب قبائل کے لوگ سرعام اسلحہ اور گولہ بارود اٹھائے قانون ہاتھ میں لے کر ایک دوسرے کی قتل و غارت گری میں مصروف ہیں‘ ریاست کے اندر ریاست کی اس سے بدتر مثال اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس علاقے میں حکومتی‘ ریاستی اتھارٹی کا کوئی وجود ہی نہیں اور چند گروہ دندناتے ہوئے کھلم کھلا اپنی اتھارٹی ایک دوسرے سے تسلیم کرانے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے ریاستی اتھارٹی کے مقابل جس کی لاٹھی اسکی بھینس کا فلسفہ اجاگر ہوتا نظر آرہا ہے۔ ایسی صورتحال کسی ریاست کی ناکامی سے ہی تعبیر کی جاسکتی ہے اور افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ کرم میں امن و امان یقینی بنانے اور شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ دار خیبر پی کے حکومت کو وہاں امن و امان بحال کرانے اور قانون کے سرکش لوگوں پر قابو پانے کی ذمہ داری ادا کرنے کی بجائے اپنی پارٹی کے سیاسی ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کیلئے اسلام آباد پر چڑھائی کی فکر لاحق ہے۔ حکومتی‘ انتظامی سطح پر بے نیازی کی اس صورتحال میں ہی مخصوص مقاصد رکھنے والے لوگوں اور مختلف جتھوں کو قانون ہاتھ میں لے کر قتل و غارت کابازار گرم کرنے کا نادر موقع ملتا ہے جبکہ اس سے ریاست کا تصور ہی مفقود ہو جاتا ہے۔ کرم میں ایک دوسرے کے متحارب قبائل میں تصادم کا جو بھی پس منظر ہے‘ اس سے قطع نظر امن و امان قائم کرنا متعلقہ حکومتی اتھارٹی کی ہی ذمہ داری ہے جس سے اغماز برتنا ریاست کے مفادات کو بٹہ لگانے کے مترادف ہے۔ اس تناظر میں بہتر یہی ہے کہ وفاق اور صوبے کی حکومتیں باہم مل کر اور ریاستی اتھارٹی بروئے کار لائیں اور کرم میں جاری خلفشار پر قابو پائیں۔ وہاں کے عوام کو آئین کے تقاضوں کے تحت جان و مال کا تحفظ فراہم کرنا بہر صورت وفاقی اور صوبائی حکمرانوں کی ہی ذمہ داری ہے۔