پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے اس کے بانی عمران خان کی کال پر احتجاج کا سلسلہ تا دمِ تحریر جاری ہے۔ وفاقی وزراءنے اس احتجاج پر شدید تنقید کی ہے۔ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ خدارا پاکستان کو اپنی گھٹیا سیاست پر فوقیت دیں۔ ملک کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے جاری اپنے بیان میں انھوں نے سوال کیا کہ سیاسی احتجاج یا ملک کی عزت اور وقار کے ساتھ سوچی سمجھی سازش اور کھیل؟ تحریک انصاف بار بار احتجاج کی کال کیوں ایسے وقت دیتی ہے جب اہم بین الاقوامی شخصیات پاکستان آ رہی ہوں؟ چاہے وہ 14 اکتوبر کو چینی وزیراعظم کا دورہ ہو، 15 اور 16 اکتوبر کو شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) اجلاس کے لیے سربراہان مملکت کی آمد ہو یا اب بیلاروس کے صدر کا دورہ۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ جو بھی انتشار پھیلائے گا اسے گرفتارکر لیا جائے گا۔ غیر ملکی مہمانوں کی آمد کے موقع پر انتشار کسی صورت قابل قبول نہیں۔ حکومت دھمکیوں سے مرعوب ہونے والی نہیں ہے۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا وفاق پر چڑھائی کی بجائے صوبے میں امن و امان قائم کرنے پر توجہ دیں۔ غیر ملکی وفد کے روٹ کے راستے میں احتجاج کرنے والے مظاہرین کو پولیس نے گرفتار اور منتشر کر دیا ہے اور ان کا روٹ کلیئر ہوگیا ہے۔ ملک میں موبائل فون سروس چل رہی ہے، حفاظتی تدابیر کے طور پر انٹرنیٹ کسی حد تک بند کیا گیا ہے۔ اس احتجاج سے جو مالی نقصان ہو گا احتجاج کے بعد اس کی تفصیلات عوام کے سامنے رکھیں گے تاکہ انھیں حقائق معلوم ہوں۔
ادھر، اتوار کو راولپنڈی سمیت پنجاب کے مختلف علاقوں میں پولیس کے کریک ڈاو¿ن اور پی ٹی آئی کارکنوں اور پولیس میں جھڑپوں کے دوران درجنوں افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔ راولپنڈی میں فیض آباد انٹرچینج سے 2 سرکاری ملازمین سمیت 10 پی ٹی آئی کارکنوں کو حراست میں لے لیا گیا۔ راولپنڈی پولیس نے فیض آباد آئی جے پی روڈ پر پی ٹی آئی کارکنوں پر لاٹھی چارج کیا اور 60 کے قریب کارکنان کو گرفتار کرلیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ آئی جے پی روڈ پر پی ٹی آئی کے 100 سے 150 کارکن موجود تھے جنھیں منشتر کیا گیا۔ دوسری جانب، پی ٹی آئی رہنماﺅں کا دعویٰ ہے کہ پنجاب کے مختلف شہروں سے اب تک 490 کارکنوں اور رہنماﺅں کو گرفتار کیا جا چکا ہے جبکہ 100 لا پتا ہیں۔ اسلام آباد پولیس نے 300 سے زائد کارکنوں کو حراست میں لیا جبکہ ڈیرہ غازی خان سے 85 افراد پکڑ لیے۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے احتجاج سے ہونے والے نقصانات پر نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے کہا ہے کہ اپوزیشن کے احتجاج کی کال سے روزانہ 190 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ لاک ڈاو¿ن اور احتجاج کی وجہ سے ٹیکس وصولیوں میں کمی ہوتی ہے۔ احتجاج کے باعث کاروبار میں رکاوٹ سے برآمدات متاثر ہوتی ہیں۔ امن وامان برقرار رکھنے کے لیے سکیورٹی پر اضافی اخراجات آتے ہیں۔ آئی ٹی اور ٹیلی کام کے شعبے میں نقصانات اس کے علاوہ ہیں۔ آئی ٹی اور ٹیلی کام کی بندش سے سماجی طور پر منفی اثر پڑتا ہے۔ وزارت خزانہ نے اس سلسلے میں رپورٹ تیار کی ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق، مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کو روزانہ 149 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ ہڑتال کے باعث برآمدات میں کمی سے روزانہ 26 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ احتجاج کے دوران براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری متاثر ہونے سے روزانہ تین ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ احتجاج کے باعث صوبوں کو ہونے والے نقصانات الگ ہیں۔ صوبوں کے زرعی شعبے کو روزانہ 26 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ صوبوں کو صنعتی شعبے میں ہونے والا نقصان 20 ارب روپے سے زیادہ ہے۔
دوسری طرف، پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما رو¿ف حسن نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کہا ہے کہ ہمیشہ بات چیت کا دروازہ کھلا تھا اور کھلا ہوا ہے۔ ہم پھر سے بات چیت کی طرف جائیں گے۔ لاہور اور کراچی میں تو کوئی ہائی کورٹ کا حکم نہیں ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاسی کردار تھا نہ ہوگا۔ بشریٰ بی بی سے متعلق جو فیصلہ ہوگا وہ بانی پی ٹی آئی کا ہوگا۔ اگر مذاکرات شروع ہوتے ہیں اور مسائل ختم تو بہت اچھی بات ہے۔ باہر نکلنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نکلتا ہے تو اس کے لیے بھی ہم تیار ہیں۔ آئین ہمیں پر امن احتجاج کی اجازت دیتا۔ ہماری مقتدرہ سے بات چیت ہو رہی تھی اور اب آگے بھی ہوگی۔
یہ عوام اور ملک کے لیے ایک تکلیف دہ صورتحال ہے اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت کو اس بات کا ذرا سا بھی احساس نہیں کہ ان کی پالیسیوں اور اقدامات کی وجہ سے ملک اور عوام کو کتنے نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مالی نقصان کا اندازہ تو لگایا جاسکتا ہے اور اسے شاید کسی صورت میں پورا کرنے کی تدبیر بھی پیدا ہوسکتی ہے لیکن اس احتجاجی سلسلے کی وجہ سے کئی مریض اور حادثات کا شکار لوگ جان کی بازی ہار رہے ہیں، کئی گھروں میں خوشی اور غمی کی تقاریب بری طرح متاثر ہو رہی ہیں، اس سب کا ازالہ کیسے ہو پائے گا؟ احتجاج کا یہ کون سا طریقہ ہے کہ ایک صوبے کے وسائل استعمال کر کے وفاق پر چڑھائی کر دی جائے؟ خیبر پختونخوا کے وسائل وہاں کے عوام کی امانت ہیں انھیں ایک سیاسی جماعت کے ایجنڈے اور پروپیگنڈے کے فروغ کے لیے استعمال کرنا بہت بڑی زیادتی ہے۔ علاوہ ازیں، ضلع کرم میں امن و امان کے جو مسائل پیدا ہوئے ہیں اس وقت صوبائی انتظامیہ کی توجہ انھیں حل کرنے پر ہونی چاہیے نہ کہ وفاقی دارالحکومت میں احتجاج کرنے پر۔ وفاقی حکومت میں شامل جماعتوں کو بھی چاہیے کہ وہ پی ٹی آئی کے ساتھ مصالحت کی کوشش کریں اور اس معاملے کو انا کا مسئلہ نہ بنائیں کیونکہ اس کی وجہ سے ملک اور عوام دونوں کو نقصان پہنچ رہا ہے اور اس نقصان کے کئی پہلو ناقابلِ تلافی ہیں۔
پی ٹی آئی کا احتجاج اورحکومتی اقدامات
Nov 26, 2024