وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں موجودہ حکومت نوجوانوں کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے ملک میں کھیلوں کی سرگرمیوں کے فروغ پر خصوصی توجہ دے رہی ہے اور پرائم منسٹر یوتھ پروگرام کے تحت حکومت کھیلوں سمیت مختلف شعبوں میں ہمارے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے بھرپور کوششیں کر رہی ہے۔ پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں نوجوانوں کے لیے جتنے اقدامات مسلم لیگ (ن) کے دور میں ہوئے ہیں شاید ہی کسی اور دور میں ہوئے ہوں۔ شہبازشریف کا دور وزارت اعلیٰ دیکھ لیں جتنے اقدامات نوجوانوں کے لیے کیے گئے، وہ مثالی ہیں۔خصوصاً لیپ ٹاپ سکیم ان میں سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ شہبازشریف نے وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالنے کے بعد وزیراعظم یوتھ پروگرام کا اجراءکیا جس کے ثمرات آج پورے ملک کے نوجوانوں کو میسر ہورہے ہیں۔ اس وقت وزیراعظم یوتھ پروگرام کے چیئرمین رانا مشہود احمد خان ہیں اور ان کی سربراہی میں اس وقت نوجوانوں کے لیے تعلیم، فنی تعلیم، کھیل اور کلچر سمیت دیگر شعبوں میں روزانہ کی بنیاد پر نئے عوامل شامل ہورہے ہیں۔
کھیلوں کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ یہ معاشرتی تعلقات کو فروغ دیتے ہیں۔ کھیل انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتے ہیں اور مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد کو ایک ہی میدان میں یکجا کرتے ہیں۔ کھیلوں کے ذریعے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ٹیم ورک، تعاون اور دوستی کے اہم اصول سیکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ، کھیلوں کے ذریعے ایک قوم یا ملک کی ثقافت کو بھی اجاگر کیا جاسکتا ہے۔ جب ایک ٹیم کسی عالمی کھیل میں حصہ لیتی ہے اور اچھا کھیل پیش کرتی ہے تو اس سے نہ صرف کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے بلکہ پورے ملک کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کا موقع ملتا ہے۔ کھیلوں کے ذریعے قوموں میں ایک نئی روح پیدا ہوتی ہے اور لوگوں کے درمیان دوستی اور ہم آہنگی کے جذبات بڑھتے ہیں۔
پاکستان میں کھیلوں کا شعبہ کافی اہمیت رکھتا ہے اور ملک نے عالمی سطح پر مختلف کھیلوں میں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ کرکٹ، ہاکی، فٹ بال، والی بال، اور کبڈی جیسے کھیل پاکستان میں خاص طور پر مقبول ہیں اور ان کھیلوں میں پاکستان نے عالمی سطح پر نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اس کے علاوہ، پاکستان میں کئی کھیلوں کے شائقین موجود ہیں جو ہر سال مختلف ٹورنامنٹس اور ایونٹس کا حصہ بنتے ہیں۔ رانا مشہود احمد خان کی زیر نگرانی پاکستان یوتھ پروگرام اور کھیلوں کے شعبے میں سرمایہ کاری اور مختلف پروگرامز کے آغاز سے نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے اور عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کرنے کے مواقع مل رہے ہیں۔
حکومت پاکستان کے پرائم منسٹر یوتھ پروگرام کے تحت اسلام آباد میں چار روزہ یونیورسٹی سپورٹس اولمپیاڈ کے میگا ایونٹ میں ملک بھر سے تین ہزار سے زائد کھلاڑی شریک ہوئے۔ یونیورسٹی اولمپیاڈ میں بیڈ منٹن اور اسکوائش سمیت 10 کھیل شامل تھے، اس ایونٹ کا مقصد نوجوانوں کومنفی اور تخریبی سرگرمیوں سے بچانے کے لیے کھیلوں میں مصروف کرنا تھا۔ اس سے ان باصلاحیت افراد اور کھلاڑیوں کی شناخت میں بھی مدد ملی ہے، جو قومی اور بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر پاکستان کی نمائندگی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جس سے ملک کا اعزاز اور نام روشن ہوگا۔ یونیورسٹی اولمپیاڈ میں تمام اسٹیک ہولڈرز، اسلام آباد میں مقیم غیر ملکی سفارت کار اور ترقیاتی شراکت داروں کے نمائندوں نے بھرپور شرکت اس ایونٹ کی کامیابی کی دلیل ہے۔
رانا مشہود احمد خان نے اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ ٹینس کے پچاس سے زائد کھلاڑی جبکہ سات ممالک سے تعلق رکھنے والے اسکوائش کھلاڑی پاکستان میں موجود تھے جوبڑے اعزاز کی بات ہے۔ اس موقع پر بنگلہ دیش کی حکومت اور ان کے سپورٹس بورڈ نے یونیورسٹی کی سطح پر تعلقات بحال کرنے کا فیصلہ کیا جو بنگلہ دیش میں فسادات کے دوران منقطع ہوگئے تھے جو کہ پاکستان میں موجودہ حکومت کی بڑی کامیابی ہے۔
رانا مشہود احمد خان کی جانب سے یونیورسٹی اولمپیاڈ کے انعقاد کے لیے وزارت اطلاعات و نشریات، ایچ ای سی اور اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے دی جانے والی معاونت کو سراہاگیا اور اس موقع پر انھوں نے پاکستان کے نوجوانوں کو کھیل سمیت تمام شعبوں میں ان کی مکمل صلاحیتوں تک پہنچنے میں مدد کرنے کے لیے حکومت کے عزم کا اعادہ کیا۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی)کے چیئرمین مختار احمد خان نے پاکستان میں کھیلوں کے فروغ کیلئے یونیورسٹیوں اور سرکاری اداروں کے درمیان باہمی تعاون کی کوششوں کی تعریف کی۔ انھوں نے کہا کہ یونیورسٹی سپورٹس اولمپیاڈ کے میگا ایونٹ پاکستان میں طلبہ اور یونیورسٹی کے کھیلوں کی ثقافت پر دیرپا اثر چھوڑے گا۔ پاکستان یوتھ پروگرام نے کھیلوں کے ذریعے نوجوانوں کی جسمانی، ذہنی اور معاشرتی فلاح میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت مختلف کھیلوں کے ٹورنامنٹس اور کیمپ نوجوانوں کو عالمی سطح پر کامیاب ہونے کے لیے تیار کرتے ہیں۔ کھیلوں کے ذریعے نوجوانوں میں جسمانی فٹنس، ٹیم ورک، قائدانہ صلاحیتیں اور معاشرتی ہم آہنگی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ یوتھ سپورٹس پروگرام سے پاکستان کھیلوں کے میدان میں عالمی سطح پر دوبارہ کامیابی کے جھنڈے گاڑے گا اور نوجوانوں کو ایک روشن اور کامیاب مستقبل فراہم کیا جاسکے گا۔
شہباز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کی پاکستان ملک کے مضبوط مستقبل کے لیے کام کررہی ہے۔ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو گزشتہ چند سال میں ایک نوجوانوں کے ٹولے کو جو ایک سیاسی جماعت کی جانب سے تربیت دی گئی ہے وہ سوائے بدتمیزی اور جاہلانہ حرکات کے کچھ نہیں۔ایک طرف حکومت نوجوانوں کے لیے مثبت سرگرمیوں کے حوالے سے اقدامات کررہی ہے تو دوسری جانب سیاسی بونوں کی ایک جماعت کی جانب سے آئے روز وفاق پر چڑھائی کا درس دیا جارہا ہے۔ لیکن یہ سیاسی بونے یاد رکھیں کہ پاکستانی قوم نے اِن کا بیانیہ مسترد کردیا ہے۔ خوشحال مستقبل پاکستانی نوجوانوں کا حق ہے اور حکومت کی جانب سے یونیورسٹی سپورٹس اولمپیاڈ کاکامیاب انعقاد اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
موجودہ حکومت نے نوجوانوں کو صحت مندانہ مشاغل میں مشغول کرکے یہ پیغام دیا ہے کہ نوجوانوں کی مثبت اور تعمیری انداز میں کس طرح تربیت کی جاسکتی ہے؟ اس طرح جب وہ عملی زندگی میں داخل ہوں گے تو ملکی مسائل کو حل کرنے کے لئے ان کے جوان جذبے کام آئیں گے۔ورنہ عمران خان نے اپنے یوتھ بریگیڈ کو دہشت گردی، تخریب کاری، فوجی تنصیبات پر حملوں اور سوشل میڈیا پر غل غپاڑہ مچانے میں مصروف کررکھا ہے۔ اس طرح وہ اپنا مستقبل برباد کررہے ہیں۔
نئی نسل کو شاید معلوم ہی نہیں کہ تحریک ِ پاکستان کا آخری معرکہ آل انڈیا مسلم لیگ کے نوجوان طالبعلموں نے ہی لڑا تھا۔ سرتاج عزیز جیسے اولو العزم نوجوان اس تحریک کا ہراول دستہ تھے۔ بیڈن روڈ پر حکیم آفتاب قرشی درویشانہ انداز میں اپنا مطب ایک چھوٹی سی دوکان میں چلاتے تھے۔ انھوں نے ایک مرتبہ مجھے اپنے پاس بلا کر ایک ضخیم مسودہ دکھایا جس میں آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ان تمام نوجوانوں کا تذکرہ شامل تھا جنھوں نے تحریک ِ پاکستان میں سرگرم حصہ لے کر ہندو اور انگریز کی غلامی سے ہندوستان کے مسلمانوں کو نجات دلوائی۔ حکیم صاحب چاہتے تھے کہ میں یہ کتاب شائع کروں۔ جس پر میں نے اپنی جیب ٹٹولی اور حکیم صاحب سے معذرت کی کہ میں یہ عظیم کتاب شائع کرنے سے قاصر ہوں۔ پھر یہ کتاب بیدار ملک صاحب نے شائع کی، کسی کو ملی، کسی کو نہ ملی، آج قرشی دواخانہ اربوں، کروڑوں کا بزنس کررہا ہے۔ حکیم آفتاب قرشی کے چھوٹے بھائی کا فرض ہے کہ وہ اس عظیم کتاب کو اس کے شایانِ شان طریقے سے شائع کرے تاکہ یہ آج کے نوجوانوں کے لیے مشعل ِ راہ ثابت ہوں۔