عباسی دور کے وزیر، ماہر تعلیم اور دانشور اصمعی کی کہانی تو بہت سوں نے سن رکھی ہو گی، غریب ماں کا یتیم بچہ جسے علم کی محبت اڑائے لئے پھرتی تھی۔ کتابیں تھامے وہ جب بھی اپنی گلی کی نکڑ سے گزرتا تو دکاندار آوازے کستا اور کہتا ”کتابوں کا بوجھ کب تک اٹھاو¿ گے۔ انہیں گھڑے میں ڈالو مزیدار میٹھا شربت تیار ہو جائے گا اور آو¿ میرے پاس مزدوری کر لو۔ چار پیسے الگ سے مل جایا کرینگے“۔ اصمعی یہ باتیں سن کر مسکرا دیتا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے خواب بہت بڑے ہیں اور بڑے خوابوں کے ساتھ محنت کا تڑکہ لگ جائے تو ان کی تعبیر بھی بڑی ہو جایا کرتی ہے پھر ایسا ہی ہوا۔ اصمعی وزیر بن گیا کسی معاملے پر دکاندار کا اس سے سامنا ہوا تو وہ پہچان نہ سکا۔ جب اصمعی نے اسے کہا کہ ”دیکھو آج کتابوں سے کتنا مزیدار شربت تیار ہو گیا ہے“ تو وہ پہچان کر معذرت طلب کرنے لگا۔ اصمعی نے اسے انعام دیکر رخصت کیا اور کہا ” تم نے تو میرے خوابوں اور محنت کے عزم کو قوت فراہم کی تم تو میرے محسن ہو کیونکہ تمہارے ”تازیانوں“ نے تو میری سمت مزید درست کر دی“۔
یقین رکھیں آگے بڑھنے، ترقی کرنے اور دنیا کو فتح کرنیوالے اصمعی سے مختلف نہیں ہوتے۔ سائنسی ایجادات ہی کی بات کر لیں جہازی سائز کی گاڑیاں، خود ہوائی جہاز، فون سیٹ، ٹی وی، کمپیوٹر، مصنوعی ذہانت، روبوٹ یہ سب پہلے خواب ہی تو تھے۔ بس فرق یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے محض خواب دیکھے اور کچھ ”کان پر قلم رکھ کر“ انہیں عملی جامہ پہنانے چل پڑے اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ منزلیں اتنی آسانی سے کہاں ملتی ہیں اور کچھ خواب نہ دیکھیں تو گزارہ بھی نہیں ہوتا۔ یار لوگ تو اس حد تک چلے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ”نیوٹن کے سر پر زمینی کشش کے طبق روشن کرنیوالا سیب جب گرا تو وہ پہلے ہی سے کوئی ایسی قوت ڈھونڈ نکالنے کے خواب دیکھ رہا تھا جو چیزوں کو گرتے ہوئے اوپر جانے کی بجائے نیچے زمین کی طرف لے آتی ہے چنانچہ موقع پر گرنے والے سیب نے موصوف کی رہنمائی کی اور کشش ثقل دریافت کر بیٹھے۔ ورنہ تو نیوٹن سے پہلے بھی ہزاروں سال سے لوگوں کے سروں پر سیب گرتے چلے آ رہے تھے اور یہ گرنے والے سیب محض ”ضیافت“ کا باعث بن رہے تھے کیونکہ وہ اچھے اور تعمیری خواب دیکھنے سے عاری لوگوں کے سروں پر گر رہے تھے۔ چاہے ناحق ہی کیوں نہ ہو پروانے کے خون کیلئے مگس کو باغ میں جانے کی اجازت دینا ہی پڑتی ہے۔
مشہور مصنف ایچ جی ویلز جب اپنی کہانیوں میں اڑنے والی مشینوں کا ذکر کرتے ہوں گے تو یقیناً تبدیلی کے ”دشمن“ انہیں ان کہانیوں کو گھڑے میں ڈال کر مزیدار شربت تیار کرنے کے مشورے دیتے ہوں گے لیکن کئی برس بعد ہی سہی اڑن مشینوں کے ان خوابوں کو رائٹ برادران نے ہی اپنی آنکھوں میں سمولیا اور جیتی جاگتی حقیقت والا ہوائی جہاز لاکھڑا کیا۔
بہت برس گزرے انگریزی فلم ”ٹوٹل ری کال“ دیکھی تو گفتگو کے ساتھ تصویر والے فون من کو بہت بھا گئے لیکن اب تو یہ حال ہے کہ یہ ”عجوبہ“ ہر کوئی اپنی جیب میں لئے پھر رہا ہے۔
ذرا اپنی کہانیوں پر بھی غور کریں ان خوبصورت شہزادیوں کے بارے میں سوچیں جو کسی انتہائی ڈراونے دیو کی قید میں فقیروں نہیں چڑیلوں یا بندریوں کا بھیس بناکر جینے پر مجبور ہوا کرتی تھیں لیکن اس کے باوجود کسی حسین شہزادے کے آنے اور دیو کو اس کے انجام تک پہنچانے کے خواب دیکھنا بالکل بھی بند نہیں کیا کرتی تھیں اور پھر ایک روز حسین شہزادہ انہیں دیو کی قید سے چھڑانے آ جایا کرتا تھا۔ اگر یہ خوبصورت شہزادیاں حسین شہزادوں کے خواب دیکھنا بند کر دیتیں تو پھر تو امید کی کوئی کرن راستوں کو منور نہ کر پاتی بلکہ ان کے پاس دیو کی زوجہ بن کر اس کے بچے پالنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہتا۔
اسی طرح اصمعی اگر کتابیں گھڑے میں ڈال کر اپنے خوابوں سے منہ موڑ لیتا تو آج اس کی بھی کوئی کہانی نہ ہوتی۔ کہانیاں خواب دیکھ کر نامساعد حالات کا مقابلہ کرکے منزل پا لینے والوں کی بنیاد بنا کرتی ہیں، ہمت ہار کر راستے میں رہ جانے والوں کی نہیں۔
مجھے یاد ہے اپنی فیکٹری کے مزدوروں کی تلاش میں ایک بار میرا دوست مجھے لاہور کے مضافات کی ایک کچی بستی میں لے گیا تھا۔ ہلکی ہلکی بارش جو امیر اور پوش علاقوں میں تفریح طبع کا باعث ہوا کرتی ہے اس بستی میں پھیلے ہوئے کیچڑ سے ملکر اداسی اور ویرانی کی ایک عجیب داستان لکھ رہی تھی اور اس سے بے خبر بچے کیچڑ میں کھیل کر اپنے آپ کو مزید آلودہ کر رہے تھے۔ میرے دوست نے شکوہ بھرے لہجے میں کہا تھا کہ ” بتاو¿" بھلا ان لوگوں نے ریاست کو کیا کرنا ہے، اس پر میں نے جواباً عرض کیا تھا کہ ”بالکل ریاست کو سگی ماں بن کر اپنی ساری شفقت اور محبت ان پر نچھاور کر دینی چاہئے، سوتیلی ماں کی طرح باتیں کچھ اور عمل کچھ اور نہیں کرنا چاہئے لیکن اگر کچھ دیر کیلئے تصور کر لیں کہ ان لوگوں کے پاس ماں جیسی کوئی ریاست نہیں تو کیا ان کے مسائل حل ہو جائیں گے“؟
پھر وہی بات ان لوگوں کی قسمت نہیں بدلا کرتی جنہیں خود اسے بدلنے کا خیال نہ ہو کہ یہی قانون قدرت اور کائنات کا نظام ہے۔ قدرت کسی گرے ہوئے پھل پر ترس کھا کر اسے دوبارہ شاخ کی زنیت نہیں بنایا کرتی۔ اسی لئے تو ساحر نے شکوے کے انداز میں کہہ ڈالا کہ ”قدرت کی مشیت تو بڑی چیز ہے لیکن یہ مظلوم کا سہارا نہیں ہوتی“۔
تسلیم کہ زندگی کی تلخیاں گھمبیر، سیاہ راتوں کے سائے گھنے ہیں، انصاف سر چھپائے پھرتا ہے اور ناانصافی سرچڑھ کر بول رہی ہے۔ یہ بھی صحیح کہ زندگی کی سچائی آنکھیں موندنے اور ذرا دم لینے کا موقع بھی خط غربت سے نیچے گر جانے والوں کو بہت کم دیتی ہے۔ لیکن ان حالات میں ہم اچھے دنوں کی آس اور سہانے خوابوں کو بھی دل و دماغ سے نکال پھینکیں تو کیا یہ مناسب ہوگا؟ اسے سادہ لوحی یا بھول پن سمجھ کر ترک کر دیں تو اس ضرب تقسیم کے بعد زندگیوں میں سوائے اندھیرے کے کچھ نہیں بچے گا۔ مظلوم ہونگے اور ظالم کا دست دراز ہوگا جو بالکل رعایت نہیں کرے گا۔
حالات کتنے کٹھن کیوں نہ ہوں، آنکھوں میں سہانے خواب ضرور سجائے رکھیں اور ان کی تکمیل کیلئے جتنی بھی کوشش کر سکتے ہوں کر گزریں۔ اچھے خوابوں اور سہانے دنوں کی امید کو دل و دماغ سے نکال کر کسی ”ڈراو¿نے دیو“ سے سمجھوتہ نہ کریں چاہے کیسی ہی پستیوں میں دھکیل دیئے جائیں۔ ‘اونچا اڑنے کے خواب سے آنکھیں نہ چرائیں‘دیپ تو دیپ سے ہی جلتا ہے۔ ‘اندھیرے سے تو اندھیر ا ہی پھیل سکتا ہے۔
اس بادشاہ کو نہ بھولیں جو شکست کھا کر ایک غار میں سہما بیٹھا تھا اور ایک چیونٹی کی دیوار پر چڑھنے کی کوشش نے اسے ہمت دی تھی۔ ظہیر الدین بابر کی بھی مثال سامنے رکھیں جو شکست پہ شکست کھاتا آخر ہندوستان کا بادشاہ اور عظیم الشان سلطنت کا بانی بن گیا تھا۔ بالکل درست کامیابی کا جگمگاتا خوبصورت زینہ ناکامیوں کے اندھیرے اور شکستہ سیڑھی سے بہت مختلف ہوتا ہے لیکن یہ بنتا ان شکستہ سیڑھیوں کو اکٹھا کرکے ہی ہے۔ جس دھج سے کوئی مقتل کو جاتا ہے اصل شان وہی ہوتی ہے کیونکہ وہی سلامت رہتی ہے۔ حالات جیسے بھی ہوں مستقل مزاجی سے اپنی شان سلامت رکھیں اور منزل کی طرف بڑھتے رہنا نہ بھولیں۔ کبھی کسی وجہ سے بڑھ نہ سکیں تو کم از کم اس کے خواب ضرور آنکھوں میں سجائے رکھیں۔ یہی میرا مشورہ اور خواب ہیں جن کا تکرار کے ساتھ تقاضا کرتا رہتا ہوں۔ فراز کا شعر عرض ہے:
ایک تو خواب لئے پھرتے ہو گلیوں گلیوں
اس پہ تکرار بھی کرتے ہو خریدار کے ساتھ
٭....٭....٭