دنیا کے سبھی جمہوری ملکوں میں احتجاج کو عوام کا جمہوری حق سمجھا جاتا ہے لیکن ہمیں تو لگتا ہے کہ ہمارے یہاں صرف احتجاج ہی جمہوری حق ہے ان لوگوں کے لیے جو یہ احتجاج کرنا چاہتے ہیں ان کے علاوہ کسی اور کا کوئی جمہوری حق نہیں کیونکہ احتجاج کرنے والے چاہے چند سو ہی کیوں نہ ہوں وہ اسے پوری قوم قرار دے رہے ہوتے ہیں ساری قوم ان کے ساتھ ہے تو پھر کسی اور کے آئینی حقوق کیا، راستے بند نہ کرنا، عوام کی نقل و حرکت کی آزادی بند نہ کردینا، روزگار بند نہ کرنا، ویسے تو یہ سب بھی عوام کا آئینی جمہوری حق ہے لیکن جب وہی چند سو یا چند ہزار احتجاجی خود کو قوم قرار دے رہے ہوں تو باقی کسی کے حقوق کا کیا خیال کرنا اور پھر احتجاج بھی کسی ایک جگہ یا مخصوص شہر اور علاقے میں نہیں بلکہ سیدھا چلو چلو اسلام آباد چلو اور وہ بھی ڈی چوک میں جو دارالحکومت کا حساس ترین ریڈ زون ہے جس کے لیے قافلے بھی پورے ملک سے پہنچنے ہیں تو ہوگیا نظام زندگی معطل، اس بار کے 24 نومبر کے احتجاج کی کال کا سن کر پھر وہی راستے، شہروں کی بندش، سڑکوں پر کھڑے کنٹینرز آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے لیکن فائنل کال کا سن کر ہلکا سا اطمینان ہوا کہ شاید اس بار واقعی میں فائنل کال ہو یقین تو نہیں تھا لیکن دل کو تسلی دینے کے لیے یقین دلایا۔ یہی سوچا کہ آخر اس جماعت کے ہزاروں کارکن بھی تو ہر بار کال کے فائنل ہونے پر یقین کرلیتے ہیں ہم بھی کرہی لیتے ہیں۔ ان کی فائنل کال تھی یا نہیں لیکن حکومتی حلقوں سے سامنے آنے والی معلومات میں انھوں نے بھی اسے فائنل کال بنانے کا عہد کرلیا تھا۔ اسلام آباد میں احتجاج کے حوالے سے قانون پہلے ہی منظور ہوچکا تھا، ہائیکورٹ سے بھی احتجاج سے متعلق احکامات سامنے آگئے، حکومت یہ بھی بھانپ چکی تھی کہ دوسری جانب سے دی جانے والی فائنل کال جلد بازی میں دی گئی ہے جس کی کوئی تیاری ہے نہ کوئی حکمت عملی۔ تحریک انصاف کا مسئلہ ہی یہ ہے کہ وہاں مشاورت کا شدید فقدان ہے۔ بانی چیئرمین نے جو کہہ دیا سب نے ‘یس باس!’ کردیا۔ احتجاجی تحریکوں کے حوالے سے ہمیشہ جامع اور مسلسل مشاورتوں کے ذریعے حکمت عملی مرتب کی جاتی ہے۔ کرنا کیا ہے؟ کیسے کرنا ہے؟ مطالبات کیا پیش کرنے اور اہداف حاصل کیا کرنے ہیں؟ یہ سب کسی ایک دماغ کا کام ہے نہ کسی ایک دماغ سے یہ کام لینا چاہیے۔ تحریک انصاف نے جوبھی احتجاج کیے ان میں مشاورت کا فقدان اور یس باس کا عنصر نمایاں رہا۔ اسی لیے ان کی احتجاجی تحریکوں کی کامیابی کا تناسب زیرو فیصد ہی رہا ہے۔ 2014ءکے آزادی مارچ اور پھر اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے تین ماہ کا طویل ترین دھرنا ناکامی سے دوچار ہوا۔ پھر 2022ءمیں حکومت جانے کے بعد کیے جانے والے احتجاج فائدے کی بجائے نقصان کا باعث بنے۔ اسمبلیوں سے استعفے ہوں ریلیاں، لانگ مارچ ہوں یا اسمبلیوں کی تحلیل تمام فیصلے الٹے پڑگئے۔ 25 مئی 2022ءکا احتجاجی مارچ جو نئے انتخابات کے مطالبے پر تھا ملک میں اسمبلیوں کی مدت مکمل کرنے کا باعث بنا اور حکومت جو انتخابات کرانے کا ارادہ کر بیٹھی تھی اپنے فیصلے سے صرف پی ٹی آئی کے احتجاج کے اعلان کے باعث پیچھے ہٹ گئی۔ اسمبلیوں سے استعفی دیے اور پھر استعفی واپس لینے کے لیے عدالتوں کے چکر لگانے پڑے، اور پھر نو مئی نے تو سب بدل دیا۔ فائنل کال کے فائنل مطالبات بھی ایسے تھے جو دراصل ناقابل عمل تھے یا یوں کہیں کہ ان پر فوری عمل درآمد ممکن نہیں۔ عمران خان کی رہائی ہو چھیبیسیوں ترمیم کا خاتمہ یا پھر مبینہ مینڈیٹ کی واپسی یہ تمام کام ایسے ہیں جو حکومت کسی ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے نہیں کرسکتی، سادہ لفظوں میں مطالبہ یہی ہے کہ خان صاحب کو جیل سے نکال کر وزیر اعظم ہاو¿س میں بٹھائیں، یہ کوئی حکومت کیسے کرسکتی ہے اور کیونکر کرے گی، رہائی عدالتوں سے ہونی ہے چھبیسویں ترمیم پارلیمنٹ نے ختم کرنی ہے انتخابی مینڈیٹ کا فیصلہ الیکشن ٹریبونلز نے کرنا ہے۔ تو پھر تحریک انصاف کیا چاہتی ہے یقین مانیں انکے اہم رہنما بھی نہیں جانتے۔ اب دھرنا دینا ہے واپس نہیں جائیں گے لیکن یہاں رہیں گے کیسے کریں گے کیا؟ دس دس ہزار اور پانچ پانچ ہزار لوگ لانے کا ہدف ملا تو کسی نے نہیں پوچھا کہ ان لوگوں کو اسلام آباد کی سردی میں لاکر چھوڑیں گے کہاں کھلائیں گے کیا؟ ہر ایم این اے اور ہر ایم ہی اے لاکھوں روپے روزانہ کہاں سے لائے گا؟ یہ سب سوال لوگ پوچھتے رہے میڈیا پوچھتا رہا لیکن فائنل کال دینے والوں کے ذہنوں میں کیوں نہ آیا؟ یا پھر ان کے ارادے کچھ اور تھے تحریک انصاف کا ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا سیاسی دھرنا دینے کا تجربہ ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ اس پر اخراجات کتنے آتے ہیں، مسائل کیا ہوتے ہیں، لیکن لگتا یہی ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت اور ان کے لیڈر نے کوئی سبق نہیں سیکھا تو ایسے میں ہر کال فائنل کہی جاسکتی ہے لیکن کوئی کال فائنل نہیں ہوسکتی نام بدل سکتا ہے اگلی فائنل کال کو آزادی مارچ کے بعد حقیقی آزادی مارچ کی طرح حقیقی فائنل کال قرار دیا جاسکتا ہے اور ان کے لوگ اسے حقیقی مان بھی لیں گے۔ اور پھر وہی دعوے ہوں گے وہی دھمکیاں۔