پاکستان کو مفلوج کرنے کی ضد

تحریک انصاف سڑکوں پر ہے تاکہ حکومت پر دباو بڑھایا جائے اور بانی پی ٹی آئی کی رہائی کو ممکن بنایا جائے۔ حکومت نے پہیہ جام کر رکھا ہے تاکہ پی ٹی آئی والے سڑک پر نہ آسکیں۔ سڑکوں پر آنے اور روکنے کی ضد نے پاکستان کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ ملک کی تمام بڑی شاہراہیں بند ہیں، پاکستان کی تمام موٹر ویز بوجہ مرمت بند ہیں اور پتہ نہیں یہ مرمت کب تک جاری رہتی ہے۔ تمام بڑے شہروں کے داخلی خارجی راستے بند کر دئیے گئے ہیں۔ اکثر تعلیمی ادارے بند ہیں، تمام ہوسٹل خالی کروالیے گئے ہیں، انٹر سٹی بسیں بند ہیں، لاری اڈے سیل ہیں، ہزاروں کنٹینر سڑکوں پر پڑے ہیں اور سڑکیں بند ہونے سے کاروبار متاثر ہو رہے ہیں۔ سبزیاں پھل منڈیوں میں نہ پہنچنے کی وجہ سے سڑکوں پر خراب ہو رہے ہیں۔ 
آج کل شادیوں کا سیزن ہے، ہزاروں شادیاں ڈسٹرب ہو گئی ہیں۔ ہزاروں جوڑوں کے ارمانوں پر پانی پھیر دیا گیا ہے، خوشیاں غارت کر دی گئی ہیں۔ انٹرنیٹ بند ہے، کئی جگہوں پر موبائل سروس بھی بند ہے۔ پاکستان میں رابطے ناپید ہو رہے ہیں اور کچھ پتہ نہیں یہ صورتحال کتنے دن چلتی ہے۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کو روکنے کے لیے اربوں روپے کے فنڈز خرچ کرکے یقینی بنایا جا رہا ہے کہ چڑیا پر نہ مار سکے۔ خیبرپختونخوا سے آنے والے رکاوٹیں عبور کرکے پنجاب میں داخل ہو چکے ہیں۔ جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے نہ جانے کیا کچھ ہو چکا ہو گا کیونکہ پاکستان میں لائیو کمنٹری کا دور ہے۔ یہاں تو اگلے لمحے کا پتہ نہیں ہوتا اور صورتحال کچھ کی کچھ ہو جاتی ہے۔ کئی لوگ ساری رات اس انتظار میں جاگتے رہے کہ ابھی کچھ ہونے والا ہے، ابھی کچھ ہونے والا ہے۔ تادمِ تحریر تو ہلکی پھلکی موسیقی جاری ہے پتہ تو اسلام آباد جا کر چلے گا کہ کیا ہوتا ہے۔
 پی ٹی آئی والے اسلام آباد میں داخل ہونے کے لیے یلغار کرتے ہیں یا کنٹینروں کے پاس پڑاو ڈال کر حکومت کے اعصاب کا امتحان لیتے ہیں کیونکہ احتجاجیوں کا آدھا مقصد تو پورا ہو چکا ہے۔ حکومت ڈسٹرب ہو چکی ہے عوام میں احتجاج زیر بحث ہے۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں تحریک انصاف کے احتجاج کے باعث اور پاکستان میں جاری صورتحال پر دنیا نظریں جمائے بیٹھی ہے۔ بین الاقوامی میڈیا پر احتجاج زیر بحث ہے اور اس احتجاج کا اثر اندر سے شاید زیادہ نہ ہو لیکن بیرونی دنیا سے زیادہ دباو کی توقع ہے۔ حکومت زیادہ دن موجودہ کیفیت برقرار نہیں رکھ سکتی۔ اگر اس کیفیت کو ختم کرنے کے لیے کوئی بڑا ایکشن ہوتا ہے تو اس کے اثرات بھی گہرے ہوں گے۔ بہر حال یوں محسوس ہوتا ہے کہ بہت ساروں کے اعصاب جواب دے چکے ہیں اور وہ اب چاہتے ہیں کہ جو کٹی کٹا نکلنا ہے نکل آئے۔ ایک اور دلچسپ امر یہ ہے کہ پورا ملک جزوی طور پر مفلوج ہے۔ کاروبار متاثر ہیں، لوگ اپنے ورک پلیس پر نہیں پہنچ پا رہے لیکن سٹاک ایکسچینج میں کاروبار اپنی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ حکومت بس سٹاک ایکسچینج پر توجہ مرکوز رکھے باقی خیر ہے۔ موجودہ کشیدگی میں بیک ڈور رابطے اور مذاکرات تو کھوہ کھاتے چلے گئے۔ سارے لوگ فریقین کے زور بازو کے انتظار میں ہیں لیکن ابھی بھی درمیانی راستہ نکالا جا سکتا ہے۔ ایک قوت ہے جو حکومت اور تحریک انصاف کو مذاکرات کی طرف لا سکتی ہے تاہم اب کچھ لو اور کچھ دو کے بغیر معاملات آگے نہیں بڑھیں گے۔ دونوں اطراف کی تیاریاں بتا رہی ہیں کہ یہ ہتھ جوڑی کیے بغیر نہیں رکیں گے۔ اس صورتحال سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ استحکام ابھی نظر نہیں آ رہا۔ سارے راستے انتشار کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ضدیں اور انائیں ملک کو لے بیٹھی ہیں اور شاید عوام بھی افراتفری سے مانوس ہو چکے ہیں۔ انھیں اب یقین ہو چکا ہے کہ ہم نے اسی رنڈی رونے میں زندگی گزارنی ہے۔ پچھلے آڑھائی سال سے غیر یقینی کے بادل چھائے ہوئے ہیں اور وہ چھٹنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ کوئی کسی کو راستہ دینے کے لیے تیار نہیں یہ سمجھا جا رہا ہے کہ اگر یہ زندہ رہا تو ہماری موت یقینی ہے اس لیے ہر کوئی دوسرے کو ختم کرنے کی حکمت عملی اختیار کیئے ہوئے ہے۔ اب ذرا سوچیں اگر احتجاج کرنے والے تمام تر رکاوٹیں ختم کرکے ڈی چوک پہنچ بھی جاتے ہیں اور وہاں کئی ماہ تک دھرنا دیے بیٹھے بھی رہتے ہیں تو کیا وہ اپنے لیڈر کو رہا کروا لیں گے؟۔ ماضی میں بھی ایک لمبا دھرنا دے کر دیکھ لیا تھا۔ اب تو مجمع کو مطمئن کرنے والا لیڈر بھی موجود نہیں۔ 
دراصل اس احتجاج کا اصل مقصد دباو بڑھانا ہے کہ آو ہمارے ساتھ بات کرو۔ حکومت ان کو بزور طاقت روکنے اور ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا انھیں کسی کھلی جگہ پر احتجاج کی اجازت دے دی جاتی اور وہ وہاں بیٹھ کر اپنا احتجاج جاری بھی رکھنا چاہتے تو رکھ لیتے۔ اب دونوں طرف سے حکمت کے ساتھ نہیں طاقت کے ساتھ نمٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ طاقت کااستعمال وسائل کی تباہی کے سوا کسی کام کا نہیں۔ اب کسی کو تو حکمت و تدبر کے تحت ثالثی کے لیئے آگے بڑھنا ہو گا۔

ای پیپر دی نیشن