مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
پاکستان آج ایک مرتبہ پھر بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں آ چکا ہے کبھی پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر کئی واقعات ہوا کرتے تھے۔ دہشت گردوں کا سر کچلنے کے لیے پوری قوم مل بیٹھی، حکومت بھی، اپوزیشن بھی۔ اور دہشت گردوں کے خلاف ”ضرب عضب“ آپریشن کا آغاز کیا گیا یہ وہ موقع تھا جب شمالی وزیرستان کے بہت سارے علاقے دہشت گردوں کی آماجگاہ بن چکے تھے۔ وہاں پر کسی کا جاناناممکن تھا، نوگوایریاز بن چکے تھے۔ حکومت کی رٹ وہاں پر ختم ہو چکی تھی۔دہشت گرد اپنی مرضی کی شریعت نافذ کیے بیٹھے تھے اور پورے ملک میں اپنی مرضی ہی کی شریعت نافذ کرنا چاہتے تھے۔روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردی کے کئی واقعات ہوتے، کہیں خودکش حملہ ہوتا، کہیں دھماکہ ہوتا، کہیں راکٹ پھینکے جاتے، کہیں کسی چوکی پر فائرنگ ہوتی۔ اور پھر ”ضرب عضب “ آپریشن کے ذریعے دہشت گردوں کو کچل کر رکھ دیا گیا۔ یہ اپنے علاقے چھوڑ کر جہاں پر ان کی اجارہ داری تھی ،راہِ فرار اختیار کرکے کوئی افغانستان چلا گیا اور کوئی پاکستان میں جہاں ان کو جگہ ملی وہاں پر چھپ گئے۔ پاک فوج کی طرف سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دس ہزار سے زیادہ سپوتوں کی قربانی دی گئی۔ جب کہ عام سویلین بھی 90ہزار کے قریب دہشت گردی کی جنگ میں جاں بحق ہوئے۔ یہ بہت بڑا نقصان ہے۔ دہشت گردی تقریباً پاکستان سے ختم ہو چکی تھی۔ ”ضرب عضب“ آپریشن اس بنا پر بند کر دیا گیا کہ دہشت گردی کے واقعات انتہائی کم سطح پر آ گئے تھے۔ لیکن اس کے بعد پھر آہستہ آہستہ دہشت گرد نمودار ہونے لگے اور آج صورت حال یہ ہے کہ دہشت گردی کے بھیانک واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں تین طرح کے لوگ ملوث ہیں ایک تو ٹی ٹی پی والے ہیں جن کی پشت پناہی طالبان حکومت کی طرف سے کی جاتی ہے۔ دوسرے مذہبی شدت پسند ہیں اور تیسرا گروہ ہے بلوچ علیحدگی پسندوں کا۔ان سب کے پیچھے بھارت کی حمایت موجود ہے۔ وہی ان کو اسلحہ فراہم کرتا ہے، وہی فنڈنگ کرتا ہے۔ دہشت گردی کا جب تقریبا مکمل خاتمہ ہو چکا تھا ،پاک فوج نے اپنا بہترین کردار ادا کر دیا تھا تو پھر سول حکومتوں کی یہ ذمہ داری تھی کہ معاملات کو ٹیکل کرتے، جہاں سے دہشت گرد چلے گئے تھے وہاں پر حکومتی رٹ کو مضبوط بناتے۔حکومتی رٹ تو خیر وہاں پر موجود تھی لیکن جس طرح سے وہاں پہرا دینے کی ضرورت تھی اس طرح پہرا نہیں دیا گیا۔آہستہ آہستہ سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات بڑھنے لگے۔ اور پھر دو چار روز قبل ہم نے یہ دیکھا کہ بنوں میں چیک پوسٹ پر حملہ کیا گیا ہے۔ دہشت گردوں نے بارود سے بھری گاڑی چیک پوسٹ سے ٹکرا دی، جس میں 12پاک فوج کے اہلکار شہید ہو گئے۔ 6دہشت گرد بھی جہنم واصل ہوئے۔
سوال یہاں پر یہ ہے کہ یہ گاڑی کہیں سے تولی گئی ، کہیں سے تیار ہوئی، کہیں سے ان میں بارود بھرا گیا۔ یہ سارا سہولت کاری کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا اور پھر پاراچنار میں جو کچھ ہوا وہاں پر فرقہ واریت میں سو سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں جبکہ ٹارگٹ کلنگ میں 45لوگ گاڑیوں سے نکال کر مار دیئے گئے تھے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دہشت گردی کے پنجے کس طرح سے پھر ان علاقوں میں جم چکے ہیں۔
دو تین روز قبل ایپکس کمیٹی کا اجلاس ہوا تھا جس میں چاروں صوبوں کے وزرائ اعلیٰ اور فوجی قیادت موجود تھی۔ وزیراعظم شہبازشریف نے صدارت کی ،تو وہاں پر اتفاق کیا گیا کہ بلوچستان میں شدت پسند تنظیموں کے خلاف پاک فوج کی طرف سے ایک جامع آپریشن کیا جائے گا۔ کوئی بھی فوج وہ دہشت گردوں کے خلاف لڑتی ہے یا محاذ پر دشمنوں کے خلاف لڑتی ہے، اس کی کامیابی کا انحصار قوم پر ہوتا ہے۔ اگر قوم پشت پر کھڑی ہے تو یقینی طور پر کامیابی ہو گی۔جامع فوجی آپریشن کا فیصلہ کیا گیا ہے، اس کے لیے ہر ادارے کو ، ہر طبقے کو، ہر شعبے کو بلکہ ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ کیا آج ہم متحد ہیں اس کا جواب آتا ہے کہ نہیں ، بالکل نہیں۔ حکومت اپوزیشن کو ایک نظر دیکھنے کے لیے اور برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے بھی ایسا ہی رویہ اختیار کیا گیا ہے۔ اپوزیشن کے اپنے تحفظات ہیں
۔ حکومت کی طرف سے بار بار پی ٹی آئی کو مذاکرات کی ٹیبل پر بلایا گیا۔ عمران خان کے پہلے چار مطالبات تھے ،اب تین رہ گئے ہیں۔ چار مطالبات میں تھے ، ایک 9مئی کے بارے میں کمیشن بنانے کا مطالبہ تھا ،اس سے تحریک انصاف کی طرف سے رجوع کر لیا گیا ہے یعنی اس پر زور نہیں دیا جا رہا۔ آج ان کا مطالبہ ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم ختم کی جائے ان کا مینڈیٹ ان کو لوٹا دیا جائے اور گرفتار لوگوں کو رہا کیا جائے۔ مینڈیٹ لوٹائے جانے کا مطالبہ کیسے قابل قبول ہو سکتا ہے۔ اگر یہ مطالبہ مان لیا جاتا ہے تو پھر حکومت کہاں پر موجود ہو گی۔ تحریک انصاف مذاکرات کے لیے اسٹیبلشمنٹ کو ہی کہتی ہے جب کہ حکومت کے ساتھ وہ بیٹھنے کے لیے وہ تیار نہیں ہے۔ ملکی دفاع کی بات ہوتی ہے تو تحریک انصاف نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ ہم ملکی دفاع میں اداروں کے ساتھ ہیں
۔ بلکہ تحریک انصاف کی طرف سے یہ بھی بار بارکہاجاتا ہے کہ یہ فوج ہماری ہے، ہم فوج کے ساتھ کھڑتے ہیں، دوسری طرف تحریک ،کے لیڈروں کی طرف سے ،اور حامیوں کی طرف سے جو کچھ پاک فوج کے حوالے سے لب و لہجہ اختیار کیا جاتا ہے وہ اداروں کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہے۔9 مئی کے معاملے میں بھی پیشرفت یہ سامنے آئی ہے کہ دس لوگوں کو 9مئی میں حملوں کا مجرم قرار دیتے ہوئے 6 سال تک قید کی سزائیں سنا دی گئی ہیں اور کچھ کو جرمانہ بھی عائد کیا گیا اور ایک کو بے گناہ قرار دے کر بری بھی کر دیا گیا ہے۔
ایپکس کمیٹی کے بعد آرمی چیف جنرل عاصم منیر فالو اپ کے طور پر پشاور گئے ان کو وہاں پر بریفنگ دی گئی۔ اس موقع پر ان کی طرف سے کہا گیا کہ فورسز ملک میں امن سلامتی کے دشمنوں کو کسی صورت نہیں چھوڑے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاک فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کاتعاقب جاری رکھے گی۔دہشت گرد عناصر اور ان کے ناپاک ارادوں کو کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔
پاکستان میں امن و سلامتی کے لیے دہشت گردی کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ ہر صورت دہشت گردوں کا سر کچلنے کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ اسی صورت ممکن ہو سکتا ہے جب پوری قوم ایک پیج پر ہو۔ کل دیکھا گیا کہ تحریک انصاف کی طرف سے اسلام آباد میں احتجاج کی کال تھی۔ حکومت کی پوری توجہ اسی طرف مبذول رہی۔ کچھ پابندیاں بھی لگائی گئی تھیں
اگر تحریک انصاف کی کال نہ ہوتی تو حکومت اس طرح سے صرف اور صرف اس احتجاج میں ہی انگیج نہ ہوتی۔ اس پر جو کچھ پارا چنار میں ہو رہا ہے جس طرح سے دہشت گردی کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے کہ قومی سطح پر وسیع تر مفاہمت ہو۔ تحریک انصاف کو اپنے ساتھ چلانے کے لیے، دہشت گردی کو جڑوں سے اکھاڑنے کے لیے، ادارے اسے انگیج کرنے کی کوشش کریں۔دوسرے لفظوں میں وسیع تر سیاسی مفاہمت کی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے انتہائی زیادہ ضرورت ہے۔