احتجاجی رحجان کاغلغلہ 


چنار…پروفیسر ریاض اصغر ملوٹی
mallotiriazasghar@gmail.com

ساڑھے چار ہزار مربع میل رقبے اور صرف 42لاکھ آبادی پر مشتمل نیم خود مختار ریاست آزادکشمیر کا خطہ یہاں کے لوگوں نے ڈوگرہ فوج سے لڑ کر 1947ء میں آزاد کرایا تھا۔ اپنا قومی پرچم، سپریم کورٹ، ہائی کورٹ، اپنی قانون ساز اسمبلی، صدر، وزیر اعظم، اپنا قومی ترانہ ہونے کے باوجود اس لئے یہ نیم خود مختار ریاست ہے کہ اس کے اقتدار اعلیٰ آزاد و خود مختار نہیں ہے۔ پاکستان سے برائے راست تعینات لینٹ آفیسران چیف سیکرٹری، سیکرٹری مالیات، آئی جی، اکاو¿نٹنٹ جنرل اور سیکرٹری ہیلتھ کے پاس اصل اختیارات ہیں۔ ان کی خوشنودی سے یہاں کے حکمران نظام حکومت چلاتے ہیں۔ آزادی کے بعد 77سالہ دور میں جس قدر سالانہ ترقیاتی بجٹ پیش ہوتا رہا اگر دیانتداری سے خرچ ہوتا تو اس مختصر سے خطے میں رسل و رسائل سمیت تمام تر مسائل حل ہو چکے ہوتے مگر 50فیصد سے زائد بجٹ کی رقم بد دیانتی کی بنیاد پر ضائع ہوتی رہی جس کے نتیجے میں آج پورے خطے کی اہم شاہرات کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ ہسپتالوں میں نہ ادویات نہ مکمل سٹاف تمام تعلیمی اداروں میں تدریسی سٹاف کی کمی جس شعبے اور محکمے کا جائزہ لیں روبہ زوال نظر آتا ہے۔ رشوت و سفارش کے بغیر جائز کام بھی کرنا محال ہے۔ ایک افراتفری کا عالم ہے۔ 42لاکھ آبادی سے نصف آبادی نوجوان نسل تنگ آکر ملک چھوڑ چکی۔ مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک سمیت یورپین ممالک میں روزگار کی تلاش میں طرح طرح کے مسائل و مشکلات کی حالت میں پریشان حال ہے۔ نوجوان نسل احساس محرومی کا شکار نظریاتی کشمکش کا شکار ہے۔ مختلف یورپین ممالک میں کچھ ہمارے لوگ بھارت کی خفیہ ایجنسی را کی اشیر باد سے نظریاتی تخریب کاری کر رہے ہیں۔ نوجوانوں کو پاکستان اور فوج کے خلاف اکسا رہے ہیں۔ یہ گھناو¿نا کھیل خطرناک ہے۔ اس کے خلاف ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ماضی قریب میں خطہ آزادکشمیر میں احتجاج کرنے کا منفی انداز پروان چڑھ رہا ہے۔ حکومت کی غلط حکمت عملی ناکامی اور نااہلی کی وجہ سے لوگ احتجاج میں راست اقدام کی طرف جا رہے ہیں۔ حالت یہ ہوگئی ہے کہ ہر عوامی مطالبے یا مخصوص کمیونٹی کی جانب سے جائز مطالبے کے لئے سڑکیں بند کرکے ٹریفک بلاک کرکے شہر بند کرکے غیر اخلاقی، غیر قانونی اور غیر مہذبانہ طریقہ کار اختیار کیا جا رہا ہے۔ لوگوں نے مطالبات کے لئے یہی واحد راستہ سمجھ لیا ہے۔ ماضی قریب میں جوائینٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے لانگ مارچ احتجاجی تحریک کے نتیجے میں سستی بجلی اور سستا آٹا تو ملا۔ حکومت نے عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات منظور کرکے اس احتجاجی طریقے کی خوب حوصلہ افزائی کی پھر عوامی ایکشن کمیٹی کی دھمکی اور احتجاج پر حکومت آزادکشمیر نے فوری پراپرٹی ٹیکس کی مد میں کمی کا واضح اعلان کرکے شاہرات بند کرکے احتجاج کرنے والوں کی کھلی حوصلہ افزائی کی۔ سستا آٹا،سستی بجلی اور پراپرٹی ٹیکس میں کمی عوام کا جائز مطالبہ تھا۔ حکومت نے ان مطالبات کو پہلے ہی حل کرنا چاہیئے تھا۔ حکومت کی نالائقی کے باعث جھتہ بندی، ہلہ بول احتجاج، سڑکیں بند،، بازار بند، ٹرانسپورٹ بند، احتجاج کے منفی رحجان کو حوصلہ ملا۔ پانی سر سے اوپر جب گزرنے لگا تو حکومت کو ہوش آیا اور 31اکتوبر 2024ءحکومت آزادکشمیر نے سٹیزن پروٹیکشن آرڈیننس 2024ء جاری کیا جس میں کہا گیا کہ آئندہ آزادکشمیر کے اندر احتجاج کے لئے شاہراہ عام کو بند کرنے اور ٹریفک متاثر کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔ قانون اور آئین کے اندر رہ کر احتجاج کا حق حاصل ہوگا۔ امن و امان برقرار رکھا جائے گا۔ ٹریفک کی روانی بحال رکھی جاے گی۔ شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کی جائے گی۔ احتجاجی پروگرام اور احتجاج کی جگہ کا تعین انتطامیہ کی اجازت سے ہوگا۔ پیشگی اجازت لازمی ہوگی۔ جلسوں جلوسوں میں آتشیں اسلحہ کی نمائش پر پابندی ہوگی طے شدہ مقررہ وقت پر جلسہ شروع ہو کر ختم ہوگا۔ خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف فوری قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ میری رائے میں حکومت آزادکشمیر کا یہ درست فیصلہ ہے۔ یہ آرڈیننس بہت پہلے جاری ہونا چاہیئے تھا تاکہ مخصوص منفی سوچ کے حامل جھتہ بند گروہوں کی حوصلہ شکنی ہوتی۔ حکومت نے بسیار خرابی کے بعد یہ اچھا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت مخالف عناصر اس آرڈیننس پر محض اس لئے تنقید کر رہے ہیں کہ ان کے سیاسی مقاصد ہیں اور وہ حکومت کو ناکام دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ آزادکشمیر میں لاقانونیت اور افراتفری کا ماحول دیکھنا چاہتے ہیں جب کہ ہم غیر جانبدارانہ ریاست اور ریاستی عوام کے مفاد میں اپنا مو¿قف پیش کرتے ہیں۔ مطالبات کو منوانے کے لئے عام شاہرات کو بند کرنا، زبردستی ٹریفک روکنا انتہائی غیر مہذبانہ غیر آئینی غیر قانونی اور غیر اخلاقی افعل ہے۔ قصور وزیر اعظم، وزرائ یا مختلف ذمہ دار محکموں کا ہوگا سزا مجبور بے بس مسافروں کو دینا کہاں کا انصاف ہے۔ مسافروں میں بیمار لوگ، عورتیں، بچے ضعیف العمر لوگ ڈیوٹیوں پر اندرون و بیرون ملک پہنچنے والے لوگوں کے لئے مسائل اور مشکلات پیدا کرنا بہت بڑا جرم ہے۔ قصور وار اپنی جگہ مزے سے بیٹھے ہیںاور مسافر گرمی سردی میں بھوکے پیاسے دن بھر سڑکوں پر گاڑیوں کے اندر خوار ہو رہے ہیں۔ معصوم بچے پانی خوراک اور دودھ کے لئے تڑپ رہے ہیں اور جھتہ بند گروہ جن کو لیڈری کا شوق ہے سڑکیں بند کرکے تفاخر سے سوچتے ہیں کہ ہم نے کوئی بہت بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ لعنت ہے ایسی گھٹیا سوچ اور اقدام پر حکومت ایسے گندے عناصر کو بزور طاقت کچلے اور انہیں قرار واقعی سزا دے تاکہ معاشرے میں ایسے گندے عناصر کے ایسے گھناو¿نے غیر قانونی اقدام سے عام شہری محفوظ رہ سکیں۔ کسی کو اگر لیڈر بننے کا شوق ہے تو قانونی راستہ اختیار کریں۔ مثبت سوچ اپنائیں قانون اور آئین کا حترام کریں۔ احتجاج کرنا حق ہے حکومت کی منفی پالیسیوں پر احتجاج ہر شہری کا حق ہے مگر عام شہریوں کو اذیت پہنچا کر انہیں تکلکیف میں مبتلا کرکے ہم اپنے حق کے لئے جدوجہد ہرگز نہیں کر سکتے۔ آئین اور قانون میں حقوق و فرائض کا واضح تعین موجود ہے جہاں ہمارے حقوق ہیں وہاں ہم پر ریاست کی جانب سے فرائض کی ادائیگی بھی لازم ہے۔ ہم حق پر زور دیتے ہیں جبکہ فرائض کو پامال کرتے ہیں۔ مہذب اور ترقیافتہ ممالک میں بھی احتجاج ہوتا ہے۔ آئے روز احتجاج ہوتے ہیں مگر بڑی مہذبانہ انداز سے سڑک کے کنارے ایک لائن میں مطالبات پر مبنی پلے کارڈز اٹھائے ہزاروں شہری احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ ہم ایک بھیڑ چال اور انتہائی غیر مہذب بد نظم قوم ہیں۔ بس سٹاپ پر دیکھیں، ریلوے سٹیشن پر دیکھیں، بینکوں میں یوٹیلٹی بلز جمع کراتے بد نظم ہجوم کو دیکھیں شادی کے موقع پر کھانے پر ٹوٹ پڑنے کے منظر کو دیکھیں یا سڑکوں اور چوکوں اور چوراہوں میں احتجاج کرتے دیکھیں تو شرم آتی ہے۔ مہذب ترقیافتہ ممالک کے مقابلے میں ہم ابھی ایک سو سال پیچھے ہیں جب کہ دعوے بڑے بلند بانگ کرتے ہیں۔ عملی طور پر صفر پوزیشن پر کھڑے ہیں۔ حکومت کی نااہلی سے اس گندے احتجاجی کلچر کو بہت فروغ ملا۔ حکومت ہی اس کی ذمہ دار ہے۔ ایک تو حکومت عوامی مسائل حل کرنے کی جانب توجہ ہی نہیں دیتی دوسرا منفی احتجاجی کلچر کے مطالبات بے وقت تسلیم کرکے خوب حوصلہ افزائی کی گئی جس کے نتیجے میں آج عوام کے علاوہ ڈاکٹرز، ٹیچرز، بلدیاتی نمائندگان، ٹھیکیدار غرضیکہ ریاست کے ہر محکمے اور شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ آئے روز سڑکیں بندکرکے احتجاج کرکے نظر آرہے ہیں۔ ہر شہری کا یہ پختہ یقین بن چکا کہ جب تک سڑک بند کرکے احتجاج نہیں کریں گے۔ ان کا جائز مس?لہ حکومت حل نہیں کرے گی لیکن یاد رکھیں یہ انتہائی منفی رحجان ہے جو ریاست کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دے گا۔

پروفیسر ریاض اصغر ملوٹی

ای پیپر دی نیشن