اندر کی بات
شہباز اکمل جندران
ہمارے ہاں پیری مریدی کی روایات پائی جاتی ہیں۔ جعلی عامل بھی جا بجا موجود ہیں ۔ پیری مریدی اور ”عملیات“ کے نام پر اس جدید اور سائنسی دور میں بھی ایسے ”واقعات“ دیکھنے میں آتے ہیں جس سے سماج میں ان کی ایک کریہہ اور مکروہ صورت ہمارے سامنے آکھڑی ہوتی ہے۔ا گرچہماضی میں ان عملیات اور پیری مریدی کے بہت سے اسباب کا کئی پہلوﺅں سے جائزہ لیا گیا۔ مگر اس کے پیچھے چھپی دھوکہ دہی کی گھناﺅنی وارداتوں کا پھر بھی سدباب نہ ہو سکا۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے متعدد بار بہت سے حقائق سے پردہ اٹھایا۔ جعلی پیروں اور عاملوں کے مکروہ چہرے ”ایکسپوز“ کئے لیکن ہمارے ہاں شاید ایسی قانون سازی نہیں کہ ان دھوکہ بازوں کو پکڑا اور کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے۔
پولیس کی جانب سے اگرچہ جعلی پیروں اور عاملوں کے خلاف بڑے شہروں میں کئی گرینڈ آپریشن ہوئے۔ جعلی پیر اور عامل پکڑے بھی گئے مگر ضمانتوں کے بعد یہ ”لوگ“ پھر سے یہ مکروہ دھندہ کرنے لگے۔
لوگ اگرچہ ان تمام باتوں کا ادراک و علم رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود انہی جعلی عاملوں اور پیروں کے چکروں میں پڑے رہتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ”توہم پرستی “ بھی عام ہے۔ لوگوں کی اکثریت اس کا شکار نظر آتی ہے۔ دیکھا جائے تو توہم پرستی کا سب سے بڑا ذریعہ جعلی پیر، نجومی اور یہ جعلی عامل ہیں۔ کہیں جادو ٹونے کے نام پر اور کہیں ستاروں کی چال اور اس کے اثرات کے نام پر لوگوں کو لوٹا جاتا ہے۔ یہ مکروہ دھندہ پچھلی کئی دہائیوں سے یونہی چل رہا ہے۔ کوئی بھی شہر ِان سے محفوظ نہیں۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر فاطمہ توفیق کا کہنا ہے جعلی عاملوں کی خرافات سے بچنے کے لیے صرف تعلیم ہی ضروری نہیں، شعور کا ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ جب تک جعلی عاملوں اور جعلی پیروں کے بارے میں آگہی نہیں ہوگی سادہ اور معصوم لوگ ان کے جال میں پھنستے رہیں گے۔ صرف عزتیں ہی نہیں اِن کے ہاتھوں اپنا پیسہ بھی گنواتے رہیں گے۔
جعلی عاملوں اور پیروں کے ہاتھوں لٹنے کے واقعات اور معاملات کئی نسلوں اور دہائیوں سے ہی چلے آ رہے ہیں۔ ان کو راتوں رات ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے گراس روٹ لیول سے معاشرے کے تمام طبقات کو علم اور آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسے صحت کے لیے صحت مند جسم کا ہونا ضروری ہے اسی طرح شعور و آگہی کی بیداری کے لیے بھی ایک صحت مند دماغ ضروری ہے۔ یہ جسمانی اعضاءمیں سے بہت ہی اہم اور معتبر عضو ہے۔ اس میں کوئی مسئلہ یا بیماری پیدا ہو جائے تو لوگ اسے روحانیات سے منسوب کر دیتے ہیں۔اس کا حل بھی کسی ماہر نفسیات یا ڈاکٹر کی بجائے کسی پیر یا عامل میں ڈھونڈتے ہیں۔ علاج کی غرض سے ا کے پاس جانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔
یہ آگہی اور شعور ہی کی کمی ہے کہ دماغی علاج ایسے پیر یا عامل سے کرانا چاہتے ہیں جو دھندے کے لیے بیٹھا ہوا ہے۔ صرف تشہیری مہم کے زور پر اپنا مکروہ دھندہ چلاتا ہے اور معصوم لوگوں کو لوٹتا ہے۔ ا سے فریب کاری کرتا ہے۔ ساس بہو کا جھگڑا ہو، کاروباری معاملات، رشتوں میں رکاوٹ، گھریلو یا پھر کوئی معاشرتی مسئلہ۔ لوگ ا±ن کا حل ڈھونڈنے جعلی پیروں اور جعلی عاملوں کے پاس جاتے ہیں۔ سمجھتے ہیں وہی ا±ن کے مسائل کو حل کریں گے۔ مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ جعلی عامل یا پیر کے پاس جا کر وہ پہلے سے بھی زیادہ مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس حوالے سے کچھ عرصہ قبل سینیٹ میں سینیٹر چودھری تنویر نے جادو ٹونے کے خلاف ایک بل پیش کیا جسے بعد ازاں قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے سپرد کیا گیا تاکہ اس کی شقوں پر غور کر کے اسے قانون بنایا جا سکے۔ مسودے میں ملک بھر میں جادو ٹونے کی روک تھام، اس پر پابندی جبکہ جعلی پیروں اور عاملوں کے خلاف سخت کارروائی کے لیے کہا گیا ہے۔ بل میں کالا جادو کرنے والے شخص کو کم از کم دو سال اور زیادہ سے زیادہ سات سال تک سزا اور پچاس ہزار سے دو لاکھ روپے تک جرمانہ کرنے کی سزا تجویز کی گئی ہے۔
جعلی عامل اور جعلی پیر ملک کے تمام بڑے شہروں میں کثرت سے موجود ہیں جو بذریعہ اشتہاری مہم اپنا دھندہ چلاتے ہیں۔ جی ٹی روڈ پر سفر کریں تو دیواروں پر جا بجا جعلی عاملوں اور جعلی سنیاسی بابوں کے اشتہار جلی حروف سے لکھے نظر آئیں گے جن میں لوگوں کو مسئلے کے حل کے لیے ا±ن کی جانب راغب ہونے کی ترکیب دی گئی ہوتی ہے۔ نیشنل اخبارات کے سنڈے میگزین بھی ایسے اشتہارات سے بھرے ہوتے ہیں۔ ماضی میں انہی اشتہارات سے متاثر ہو کر لندن میں مقیم گوجرانوالہ کی ایک پڑھی لکھی فیملی کی شادی شدہ خاتون شاہ جی نامی ایک جعلی عامل کے چنگل میں پھنس گئی۔ اپنے ایک مسئلے کے حل کے لیے جعلی عامل سے رابطہ کیا اور ایک سال کے اندر کروڑ سے زیادہ کی رقم اے دے دی جو مختلف اقساط میں جعلی عامل کو گوجرانوالہ بھجوائی۔ اقساط میں سب سے بڑی قسط ساٹھ لاکھ روپے کی تھی۔ خاتون کا مسئلہ جب حل نہ ہوا تو ا نے رقم کی واپسی کا مطالبہ شروع کر دیا۔ دھمکی دی کہ پاکستان میں مقیم ا کے عزیز و اقارب اے نہیں چھوڑیں گے۔ ا کے خلاف تھانہ میں مقدمہ درج کرائیں گے۔ جس کے بعد شاہ جی نامی یہ جعلی عامل متعلقہ پلازہ سے رفو چکر ہو گیا۔ متاثرہ خاتون کے رشتہ دار جب متعلقہ ایڈریس پر پہنچے تو دفتر پر ایک موٹا تالہ لگا ہوا تھا۔ سائن بورڈ بھی غائب تھا ۔ فراہم کردہ موبائل نمبر بھی اب بند ہو چکا تھا۔
خاتون کے عزیز نے جو ایک معروف کالم نگار بھی ہیں۔ اس بابت ا وقت کے ڈی آئی جی ذوالفقار احمد چیمہ کو ساری تفصیل بتائی تو انہوں نے سٹی ڈویژن کے ایس پی کو ذمہ داری سونپی کہ ضلع بھر کے جعلی عاملوں کے خلاف گرینڈ آپریشن کریں۔ اس آپریشن کے نتیجے میں کافی جعلی عامل پکڑے گئے جبکہ کچھ مخبری ہونے پر بھاگ گئے۔
پنجاب سمیت صوبہ سندھ میں بھی جعلی پیروں اور جعلی عاملوں کا دھندہ پورے عروج پر ہے۔ تعویز گنڈوں اور عملیات کی آڑ میں معصوم اور سادہ لوگوں سے لاکھوں روپے بٹور لیے جاتے ہیں۔ اکثریت شکایت لے کر تھانوں میں نہیں جاتی جو جاتے ہیں ا±ن کی کارروائی کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچتی۔ لے دے کے معاملہ تھانے میں ہی ختم کر دیا جاتا ہے۔
یہ زیادہ دیر کی بات نہیں۔ پنجاب کے شہر اوکاڑہ کے نواحی قصبے میں جعلی عامل نے ایک خاتون کو ”زیادتی“ کانشانہ بناڈالا۔ مذکورہ خاتون اولاد نہ ہونے پر جعلی عامل کے پاس گئی تھی جس نے 21روز تک خاتون کو بلاناغہ اپنے پاس آنے کو کہا ، جب خاتون تیسرے روز گئی تو جعلی عامل نے اے ”زیادتی“ کا نشانہ بنایا۔ خاتون کی درخواست پر تھانہ صدر اوکاڑہ نے دھوکہ دہی اور ریپ کے الزام میں جعلی عامل کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔ بعد ازاںجعلی عامل گرفتار ہوا۔تھانے میں تین روزہ ریمانڈ کے بعد اے جوڈیشل مجسٹریٹ نے جیل بھیج دیا۔
یہ صرف ایک واقعہ نہیں۔ اس جیسے کتنے ہی واقعات اکثر مختلف مقامات پرپیش آتے رہتے ہیں۔ تاہم بہت سی خواتین عزت کے ڈر سے پولیس سے رجوع نہیں کرتیں۔ ان کے فراڈ کا شکار بننے والے لوگوں کی اکثریت بھی اس لیے ایف آئی آر کی رجسٹریشن کے لئے تھانوں کا رخ نہیں کرتی کہ جعلی عاملوں کے پیچھے بہت سے بااثر لوگ ہوتے ہیں جو مصیبت کے وقت انہیں بچانے آ جاتے ہیں۔ یہی لوگ مقدمات کا اندراج بھی نہیں ہونے دیتے۔ یہ لوگ معاشرے کا بدترین ناسور ہیں۔ جن کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے۔ جس کے لیے سخت قانون سازی ہونی چاہیے۔