*بشری بی بی کے سعودی عرب پر احمقانہ الزامات ، اور پنجاب اسمبلی کی قرارداد* 

شاہد نسیم چوہدری ٹارگٹ
   پنجاب اسمبلی میں استحکام پاکستان پارٹی کے رکن شعیب صدیقی نے بشریٰ بی بی کے سعودی عرب اور سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے متعلق مبینہ جھوٹے لغو الزامات، پر مذمتی قرارداد جمع کرادی۔ قرارداد میں کہا گیا کہ یہ بیان پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دہائیوں پرانے تعلقات پر ضرب لگانے کی ناکام کوشش ہے۔سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے سعودی ے شہروں میں ٹیلی گراف ایکٹ کے تحت مقدمات بھی درج کیے گئے ہیں۔صوبہ پنجاب کے جنوبی شہر ڈیرہ غازی خان کے تھانہ درخواست جمال میں درج کیے گئے اس مقدمے میں درخواست گزار کا الزام ہے کہ بشریٰ بی بی المعروف پنکی پیرنی کا بیان ’پاکستان اور سعودی عرب کی خارجہ پالیسی اور اعلیٰ سطحی امور اور باہمی مفاد عامہ کے خلاف ہے۔‘ اسی طرح ان کے خلاف گوجرانوالہ اور لیہ میں بھی مقدمات درج کیے گئے ہیں۔جیل سے نو ماہ بعد ضمانت پر رہائی کے بعد بشریٰ بی بی نے ایک ویڈیو پیغام میں دعویٰ کیا تھا کہ ’عمران خان کے خلاف جو ساری قوتیں کھڑی ہو گئیں اس کی وجہ کیا ہے جو آج تک کسی نے آپ کو نہیں بتائی؟ عمران خان جب سب سے پہلے ننگے پاو¿ں مدینہ شریف گئے اور واپس آئے تو جنرل باجوہ کو کالز آنا شروع ہو گئیں کہ ’یہ تم کیا ا±ٹھا کر لے آئے ہو۔ ہم تو ملک میں شریعت ختم کرنے لگے ہیں اور تم شریعت کے ٹھیکیداروں کو لے آئے ہو۔ ہمیں یہ نہیں چاہیے‘۔‘اس سارے مضحکہ خیز بیان بارےسابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے ان الزامات کو بے بنیاد اور جھوٹا قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ میں کعبہ جا کر بھی یہ حلف دینے کو تیار ہوں کہ بشری بی بی نے یہ سب جھوٹ بولا ہے۔ان کے مطابق نہ تو اس قسم کی کوئی کالز موصول ہوئیں اور نہ ہی اس بیان میں کوئی حقیقت ہے۔ انہوں نے اس الزام کو ایک سازش قرار دیا۔اس میں کہا گیا کہ بشریٰ بی بی کا بیان خارجہ پالیسی میں دخل اندازی اور ملکی مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے، جس پر مکمل انکوائری کی ضرورت ہےجو پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کو نقصان پہنچانے کے لیے کی جا رہی ہے؟۔پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات ہمیشہ سے نہایت اہم رہے ہیں۔ سعودی عرب پاکستان کا ایک دیرینہ اور قریبی اتحادی ہے، جو ہر مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کو پہنچا ہے، چاہے وہ اقتصادی بحران ہو، تیل کی سپلائی ہو، یا کوئی دیگر ہنگامی صورتحال۔ ان تعلقات میں مضبوطی اسلامی برادری، جغرافیائی مفادات، اور باہمی احترام پر مبنی ہے۔سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو دی گئی اقتصادی امداد اور سرمایہ کاری دونوں ممالک کے تعلقات کا اہم حصہ ہیں۔ علاوہ ازیں، لاکھوں پاکستانی سعودی عرب میں محنت مزدوری کرکے نہ صرف اپنے اہل خانہ کی کفالت کرتے ہیں بلکہ پاکستان کی معیشت میں زرمبادلہ کے ذریعے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔شعیب صدیقی کی جانب سے جمع کرائی گئی قرارداد میں بشریٰ بی بی کے بیان کو ملک کی خارجہ پالیسی اور قومی مفادات پر حملہ قرار دیا گیا۔ قرارداد کے مطابق، ایسے بیانات سے نہ صرف پاکستان کی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے بلکہ سعودی عرب جیسے قریبی اتحادی کے ساتھ تعلقات بھی خراب ہو سکتے ہیں۔اس قرارداد میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ اس معاملے کی جامع انکوائری کی جائے اور دیکھا جائے کہ اس کے پیچھے کیا مقاصد تھے۔ قرارداد میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی کہ ایسے بیانات سطحی سیاسی مقاصد کے لیے عوام کو گمراہ کرنے کے لیے دیے گئے ہیں۔پاکستان کی سیاست میں شخصیات کے بیانات اکثر تنازعات کا سبب بنتے ہیں۔ بشریٰ بی بی کے مبینہ بیان کو بھی سیاسی میدان میں ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ استحکام پاکستان پارٹی کی جانب سے یہ قرارداد پیش کرنا اس بات کی علامت ہے کہ موجودہ سیاسی ماحول میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت تحریک انصاف اور ان سے وابستہ افراد کی ہر حرکت پر نظر رکھی جا رہی ہے۔قرارداد میں جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف بیان کو بھی قابل مذمت قرار دیا گیا۔ یہ بات قابل غور ہے کہ پاکستان کی سیاست اور خارجہ پالیسی میں فوج کا کردار ہمیشہ نمایاں رہا ہے۔ اس طرح کے بیانات نہ صرف فوج کی ساکھ پر اثر انداز ہو سکتے ہیں بلکہ ملکی سلامتی اور استحکام کے لیے بھی خطرہ بن سکتے ہیں۔ایسے بیانات پر عوامی ردعمل بھی خاص اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستانی عوام سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور بشریٰ بی بی کے احمقانہ بیان نے کئی حلقوں میں تشویش پیدا کی ہے۔ عوامی سطح پر اس قرارداد کو زیادہ تر حمایت ملی ہے کیونکہ سعودی عرب کو ایک قریبی دوست اور خیر خواہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔پاکستان کی خارجہ پالیسی ایک حساس موضوع ہے جسے سنجیدہ اور ذمہ دارانہ انداز میں چلانے کی ضرورت ہے۔ میڈیا کا کردار اس حوالے سے مزید بڑھ جاتا ہے، کیونکہ بیانات اور خبروں کی غلط تشریح تعلقات میں غلط فہمیاں پیدا کر سکتی ہے۔ بشریٰ بی بی کے بیان کے معاملے میں بھی میڈیا نے اہم کردار ادا کیا، جس سے یہ مسئلہ نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی زیر بحث آیا۔بشریٰ بی بی کے مبینہ بیان اور اس کے بعد آنے والی قرارداد اور بشری بی بی پر درج ہونے والے مقدمات نے یہ واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو کسی بھی قسم کے سیاسی تنازعے سے دور رکھنے کی ضرورت ہے۔ ایسے بیانات اور ان پر ردعمل سے ملکی مفادات پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔پنجاب اسمبلی کی قرارداد اس بات کی بھی عکاسی کرتی ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت اس معاملے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ تاہم، اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ اس معاملے کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال نہ کیا جائے، بلکہ دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کی کوشش کی جائے۔پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کئی دہائیوں کی آزمائشوں پر پورے اترےہیں، اور ایسے معاملات کو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو خراب کرنے کا ذریعہ نہیں بننے دینا چاہیے۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں پی ٹی آئی کے کارکن اور گلوکار سلمان احمد نے بشریٰ بی بی کو ’کرپٹ اور لالچی‘ کہا جو اپنے خاندان اور ملک ریاض، زلفی بخاری، فرح گوگی اور جنرل فیض جیسے دوستوں کے ساتھ مل کر عمران خان کے لیے ’مسلسل شرمندگی کا باعث‘ بن رہی ہیں۔۔بشری بی بی کے احمقانہ اس بیان پر دیگرشخصیات، جن میں طاہر اشرفی اور خواجہ آصف شامل ہیں، نے بھی تنقید کی اور اسے سیاسی مفادات کے لیے استعمال ہونے والے "اسلامک ٹچ" کے بعد اس بیان کو ایک "شریعت کارڈ" قرار دیا۔وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ بشری بی بی کے الزامات انتہائی شرمناک اور قابل مذمت ہیں۔واضح رہے کہ یہ وہی سعودی عرب ہے جس نے دونوں میاں بیوی عمران،بشری بی بی کو کروڑوں روپے کے ہیرے جواہرات،سونا،چاندی،گھڑیاں اور قیمتی نوادرات کےتحفے دئے ہوئے ہیں۔اسی سعودی عرب پر الزامات لگانے سے بشری بی بی کی "عقل" کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔۔۔۔،

ای پیپر دی نیشن