ریاست کے دائمی اداروں کو شاید اب  "کچھ نیا" کرنا پڑے۔

Nov 26, 2024

نصرت جاوید

تحریک انصاف کے ناقدین کو کھلے دل سے تسلیم کرلینا چاہیے کہ پیر کی صبح تک اسلام آباد میں بے پناہ ہجوم کے ساتھ داخل نہ ہونے کے باوجود عاشقان عمران خان نے اتوار کے روز اپنی قوت کا قابل ستائش مظاہرہ کیا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ ہی نہیں یورپ کے کئی شہروں میں بھی اپنی بھرپور موجودگی کو ثابت کیا۔ بات ابھی تک مگر اس سوال پر رْکی ہوئی ہے کہ خیبرپختونخواہ کے وزیر اعلیٰ ایک بڑے لشکر کے ساتھ اسلام آباد کے ڈی چوک پہنچ پائیں گے یا نہیں۔ رواں برس اکتوبر کے پہلے ہفتے میں وہ اپنے ہمراہ آئے قافلے کو غچہ دے کر اسلام آباد کے خیبرپختونخواہ ہائوس پہنچ گئے تھے۔ وہاں چند ہی لمحے گزارنے کے بعد ’’غائب‘‘ ہوگئے اور کئی گھنٹوں تک لاپتہ رہنے کے بعد حیران کن انداز میں پشاور پہنچ گئے۔
اب کی بار اکتوبر کی کہانی دہرانا مشکل نظر آرہا ہے۔ وجہ اس کی عمران خان کی اہلیہ ہیں۔ چند روز قبل عدالت سے ضمانت کے حصول کے بعد وہ پشاور چلی گئی تھیں۔ وہاں وزیر اعلیٰ کے لئے مختص گھر میں مقیم رہیں اور کارکنوں سے رابطے استوار کئے۔ وہاں قیام کے دوران ہی انہوں نے جمعرات کے روز ایک وڈیو پیغام بھی جاری کیا۔ اس پیغام کا مواد ہمارے برادر ملک سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے کافی قابل اعتراض تھا۔ عاشقان عمران مگر اس کے بارے میں فکر مند نہیں۔ بشریٰ بی بی پشاور سے آئے قافلے میں نہ صرف شامل ہیں بلکہ اس پر کڑی نگاہ بھی رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے علی امین گنڈا پور کے لئے اکتوبر کی تاریخ دہرانا تقریباََ ناممکن ہوجائے گا۔
علی امین گنڈاپور اگر قافلے کے ہمراہ اسلام آباد آنے کو ڈٹے رہے تو پنجاب اور وفاق کی پولیس کو انہیں روکنے کے لئے ہر نوعیت کا ہتھکنڈہ استعمال کرنا ہوگا۔ اس کی وجہ سے ایک صوبے کے عوام ہی نہیں بلکہ وہاں کی حکومت بھی ایک اور صوبے (پنجاب) کے علاوہ وفاق کے خلاف بھی علم بغاوت اٹھاتی نظر آئے گی۔ ہمارا تحریری آئین ایسی صورت حال سے نبردآزما ہونے کا واضح راستہ فراہم نہیں کرتا۔ گورنر راج ہی واحد حل نظر آتا ہے۔ اس کا نفاذمگر ایک بار پھر عدالتوں کو سیاسی قضیوں میں ملوث کردے گا۔ معاملات حد سے بڑھے تو آئین میں تحریر شدہ محدودات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے چند طاقتور ادارے ’’وفاق بچانے‘‘ کے نام پر غیر معمولی اقدامات لینے کو مجبور ہوسکتے ہیں۔ دوسری صورت میں وفاق اور پنجاب پولیس علی امین گنڈا پور کے ہمراہ آئے قافلے کو راستہ دینے کو مجبور ہوجائیں گی۔ انہیں راستہ مل گیا تو راولپنڈی ہی نہیں اسلام آباد میں موجود تحریک انصاف کے چاہنے والوں کے حوصلے بلند ہوجائیں گے۔ علی امین کے ڈی چوک پہنچنے تک کارکنوں کا جم غفیر ان کے استقبال کو موجود ہوگا۔ سوال اٹھتا ہے اس کے بعد کیا ہوگا؟
نظر بظاہر عاشقان عمران فقط یہ چاہتے ہیں کہ ان کے قائدکو فی الفور رہا کردیا جائے۔ میں یہ بات مگر سوچ نہیں سکتا کہ عمران خان کو رہا کردیا گیا تو وہ اڈیالہ جیل سے ڈی چوک پہنچ کر اپنے کارکنوں سے خطاب کے ذریعے انہیں گھر لوٹنے کا حکم دے کر بنی گالہ روانہ ہوجائیں گے۔ فرض کیا یہ ہوبھی گیا تو بنی گالہ پہنچتے ہی وہ حکومت کے خلاف اگلے رائونڈ کی تیاری شروع کردیں گے۔ شہر شہر جاکر لوگوں کو اس امر پر قائل کریں گے کہ 8فروری 2024ء کے دن ان کی پارٹی کا مینڈیٹ چرایا گیا تھا۔ پاکستان میں امن وخوش حالی فقط اسی صورت یقینی بنائی جاسکتی ہے اگر مبینہ طورپر فارم 47کی بدولت قائم ہوئی حکومت کا خاتمہ ہو۔ اس کی جگہ عبوری حکومت کا قیام عمل میں آئے جس کا واحد مقصد فوری انتخاب ہوں۔ اسلام آباد پر لشکر کشی کی بدولت عمران خان کی رہائی گویا وقتی بحران سنبھالنے کے بعد مزید بحرانوں کو جنم دے گی۔
نئے انتخاب کا ذکر چلا ہے تو سوال یہ بھی اٹھے گا کہ وہ فقط نئی قومی اسمبلی کے چنائو کے لئے ہوں گے یا چاروں صوبوں سے بھی ’’نیا مینڈیٹ‘‘ حاصل کیا جائے گا۔ نئے انتخاب کے حصول کے لئے لازمی ہے کہ موجودہ وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ اپنی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا اعلان کریں۔ شہبازشریف اور مریم نواز صاحبہ وفاق اور پنجاب کے حوالے سے اس کے لئے آمادہ ہو بھی گئے تو اس امر کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتا کہ مراد علی شاہ بھی سندھ اسمبلی کی تحلیل کو رضا مند ہوجائیں گے۔ بلوچستان کے سرفراز بگتی بھی انکار کرسکتے ہیں۔ وہ دونوں راضی نہ ہوئے تو پاکستان کے دو صوبے -بلوچستان اور سندھ- ’’قومی دھارے‘‘ سے جدا ہوئے نظر آئیں گے۔ خیبرپختون خواہ کے وزیر اعلیٰ کی جانب بڑھائے دبائو کے نتیجہ میں عمران خان کی رہائی کے باوجود لہٰذا ’’سیاسی استحکام‘‘ مفقود رہے گا۔ ابتری اور خلفشار کے بلکہ نئے باب کھل جائیں گے۔
اپریل 2022ء سے مسلسل اس کالم میں دہائی مچاتا رہا کہ عمران خان کی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد نئے انتخاب ہی وطن عزیز کو سیاسی و معاشی استحکام کی راہ پر ڈال سکتے ہیں۔ شہبازشریف صاحب نے مگر سیاست کے بجائے ریاست کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کو ترجیح دی۔ دیوالیہ تو یقینا ٹل گیا مگر ملک کو سیاسی استحکام نصیب نہیں ہوا۔ دیوالیہ سے بچائو کے لئے آئی ایم ایف کے دبائو پر مہنگائی کا عذاب نازل ہوا تو عوام بددل ہوگئے۔ 8فروری2024ء کے دن عوام کی اکثریت کے دلوں میں جمع ہوتی بددلی کا بھرپور اظہار ہوا۔ اس کے بعدبہتریہ تھا کہ تحریک انصاف کو عددی اعتبار سے قومی اسمبلی کی سب سے بڑی جماعت تسلیم کرتے ہوئے ہر صورت حکومت تشکیل دینے کو مجبور کیا جاتا۔ وہ رضا مندنہ ہوتی تو ایک اور انتخاب کی راہ نکالی جاتی۔ بروقت سیاسی فیصلے نہ لینے کی وجہ سے پاکستان کا سیاسی بحران گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتا رہا۔ دْکھے دل مگر نہایت دیانتداری کے ساتھ یہ سوچنے کو مجبور ہورہا ہوں کہ عمران خان کی رہائی بھی اب سیاسی استحکام یقینی نہیں بناسکتی۔ ان کی رہائی کے بعد بلکہ سیاسی قضیوں کے نئے باب کھلیں گے۔ ان سے بچائو کے لئے ریاست کے دائمی اداروں کو شاید ’’کچھ نیا‘‘ کرنا پڑے گا۔

مزیدخبریں