غزہ اور لبنان دونوں کی شہری آبادی کا قتل عام جاری ہے اور غیر متناسب مزاحمت بھی۔ دونوں علاقوں میں شہید ہونے والوں کی اوسط روزانہ تعداد دو سو ہے۔ سو کے لگ بھگ لبنان میں اور اس سے زیادہ غزہ میں شہید ہو رہے ہیں۔ کل یعنی 25 تاریخ کو چھ اسرائیلی فوجی لبنان میں اور اتنے ہی غزہ میں مارے گئے۔ جنوبی لبنان میں حزب اللہ نے 6 اسرائیلی ٹینک تباہ کئے اور اس سے کچھ کم گاڑیاں غزہ میں حماس والوں نے تباہ کیں۔
اسرائیل جنوبی لبنان میں پیش قدمی کر رہا ہے۔ جنوبی لبنان کے علاقے البیاضہ پر کم و بیش اسرائیل کا قبضہ مکمل ہو چکا ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدارت کا حلف اٹھاتے کے موقع پر مغربی کنارے کو اسرائیل کا حصہ بنائے جانے کا اعلان پہلے ہی آ چکا ہے۔ اسرائیل اپنے رقبے میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے اور لگتا ہے، جب کبھی جنگ بندی ہو گی تو اسرائیل ان علاقوں سے واپس نہیں ہو گا۔ امریکہ یورپ اس بات پر جشن منائیں گے کہ دیکھو، ہم نے بالآخر جنگ بندی کرا دی۔
ایک محاذ شام میں کھلا ہے جہاں دو برس کے دوران اسرائیل نے سینکڑوں حملے ایرانی اہداف پر کئے ہیں۔ ان حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ لوگوں کو یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ شام ایران کا اتحادی ہے لیکن اس نے ایک بھی شامی حملے کا جواب نہیں دیا اور عجیب تر یہ بھی ہے کہ اسرائیل نے ایک بھی حملہ شام کی فوجی تنصیبات یا چوکیوں پر نہیں کیا۔ اس کے حملوں کا ہدف صرف ایران اور حزب کے اڈّے ہوتے ہیں۔ کچھ شامی فوجی اگر ان حملوں میں مارے گئے تو اس لئے کہ وہ ایرانی اڈوں کے اندر یا بالکل پاس موجود تھے۔
یہ عقدہ صرف انہی لوگوں کیلئے عقدہ نہیں ہے جنہیں 2011ء کے واقعات یاد ہیں۔ مارچ 2011ء میں شامی حکومت کے خلاف بغاوت شروع ہوئی تھی۔ دمشق کے قریب ایک قصبے میں بچوں نے دیوار پر ’’حرّیت‘‘ یعنی آزادی کا لفظ لکھا۔ شام کی فوج نے کئی درجن بچے گرفتار کر لئے اور ان دونوں ہاتھوں کی انگلیاں کاٹ دیں۔ اس پر بغاوت پھوٹ پڑی اور ایک سال کے اندر اندر صورتحال یہ ہو گئی کہ بشاری فوج کا کنٹرول صرف دس فیصد شامی رقبے پر رہ گیا بلکہ اس سے بھی کم۔ دمشق اور لطاکیہ کے سوا تمام شہر باغیوں کے قبضے میں چلے گئے۔ اسی دوران داعش نمودار ہوئی اور اسی نے باغیوں پر زوردار حملے کر کے مشرق میں ایک تہائی شام پر قبضہ کر لیا۔ اب بھی باغیوں کے پاس 60 فیصد رقبہ تھا۔ انہی دنوں ایرانی حکومت نے بیان جاری کیا کہ دمشق کا سقوط ہوا تو اسرائیلی وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ بیان کا مدعا یہ تھا کہ اسرائیل کچھ کرے اور باغیوں کیخلاف فوج اتارے لیکن اسرائیل میدان میں نہیں آیا۔ پھر جب خبریں آنا شروع ہوئیں کہ دمشق کا سقوط ہفتوں کی نہیں دنوں کی بات ہے تو جیسے ریموٹ کنٹرول کا بٹن دب گیا۔ امریکہ برطانیہ فرانس روس اور ایران کی فضائیہ نے شام پر بمباری شروع کر دی اور ایران نے دسیوں ہزار فوج شام میں اتار دی۔ باغیوں کے قبضے سے شہر نکلنے لگے لیکن سب سے بڑے شہر البیو (حلب) پر بدستور باغیوں کا قبضہ تھا اور وہاں ان کا دفاع بہت مضبوط تھا۔ اس بغاوت کی قیادت اخوان المسلمون کے عناصر کر رہے تھے اس لئے تمام عرب ممالک ، اور ایران کے ساتھ ساتھ ترکی کی حکومت بھی پریشان تھی جو اخوان کو خطرہ سمجھتی تھی۔ شام پر اخوان کے قبضے کا مطلب یہ تھا کہ ترکی میں بھی اخوانی سوچ کے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے۔ نیز ترکی اسرائیل کا پرانا دوست ملک ہے۔ طیب اردگان کے دور حکومت میں یہ دوستی اور مضبوط ہو گئی اور دونوں ممالک کی باہمی تجارت میں دوگنے سے بھی زیادہ اضافہ ہو گیا۔ ادلیب پر زبردست بمباری کے باوجود باغیوں کا قبضہ نہ چھڑایا جا سکا تو ترکی سے مدد لی گئی۔ ترکی حکومت باغیوں کی ہمدرد اور غمگسار بن کر سامنے آئی اور اس نے مزاحمتی قیادت کو یہ یقین دلایا کہ تم البیو خالی کر دو، ہم باقی علاقے پھر سے واپس لینے میں تمہاری مدد کریں گے۔ تحریک مزاحمت فریب میں آ گئی۔ اس کے باغی البیو سے نکل گئے اور اس کے بعد زمینی دستوں نے شہر میں قتل عام شروع کر دیا۔ چند ہی روز میں ایک لاکھ شہری قتل کئے گئے جن میں اکثریت دس سال سے کم بچوں کی تھی۔ یوں شام میں ایران کا عمل دخل بلکہ کنٹرول مستحکم ہو گیا۔
اسرائیل خاموش تماشائی بھی تھا اور شامی عوام کے قتل عام میں ملوث تمام فریقوں کا خاموش اتحادی بھی۔ جب باغی شمال مغربی شام کے محض ایک صوبے ادلیب (بشمول کچھ ملحقہ صوبوں کے مختصر رقبے کے) تک محدود ہو گئے اور مشرق میں داعش بھی ختم کر دی گئی تو اسرائیل نے مطالبہ کیا کہ اب ایرانی فوج کے شام میں رہنے کی ضرورت نہیں، وہ واپس چلی جائے۔ لیکن ایران نے اپنی فوج نہیں نکالی۔ کہا جاتا ہے کہ ایران کی نظر شام کے راستے سے ہو کر ’’اردن‘‘ پر تھی۔ اس وقت بعض لوگوں کا خیال تھا کہ ایران آسانی سے اردن پر قبضہ کر سکتا ہے اور وہاں سے سعودی عرب پر دبا? بڑھایا جا سکتا ہے۔ یہ صورتحال اسرائیل کیلئے قابل قبول نہیں تھی۔ وہ اردن کے ہاشمی خاندان کی حکمرانی کو گریٹر اسرائیل کا ایک جزو سمجھتا ہے۔ وہ کسی قیمت پر بھی اردن کو خطرہ لاحق ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ یہیں سے بات بڑھی۔
شامی حکومت اب بھی ایران کی اتحادی ہے لیکن وہ اسرائیل کو بھی ناراض نہیں کر سکتی۔ عملاً اس نے اسرائیل کو ’’کھلا لائسنس‘‘ دے دیا ہے کہ وہ ایرانی اہداف پر جتنے چاہے حملے کرے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جنوبی شام میں ایران کے بہت کم اڈّے باقی رہ گئے ہیں۔ اس علاقے میں ایران کے اڈّے ہیں لیکن محض چند ایک۔ دمشق کے اندر موجودگی ایران ضروری سمجھتا ہے لیکن اسرائیل اسے برداشت نہیں کرتا۔ چنانچہ دمشق میں ایران کا بہت نقصان ہوا ہے اور اب اسرائیل نے شمال سے بھی ایران پر حملے شروع کر دئیے ہیں۔ تدمیر کا شہر شمالی اور مشرقی حصے میں ہے جہاں ایران کا بہت اہم اور غالباً اس خطے کا سب سے بڑا اڈہ تھا۔ گزشتہ ہفتے اس پر حملے میں جہاں سو ایرانی جنگجو مارے گئے، وہیں ایران کے اسلحے کے بے پناہ ذخائر بھی تباہ ہوئے۔
ایران کی طرف سے تازہ بیان یہ آیا ہے کہ وہ اسرائیل کے جوابی حملے کی تیاری کر رہا ہے۔ دیکھئے کب ہوتا ہے۔!
اس وقت شام کی تقسیم کا خلاصہ یہ ہے کہ شمال مشرق میں ایک تہائی رقبہ کرد ریاست کے قبضے میں ہے۔ شمال میں 5 فیصد رقبے پر ترکی کا قبضہ ہے۔ شمال مغرب میں 5 فیصد رقبے (ادلیب اور کچھ ملحقہ علاقہ) شامی مزاحمت کے زیر حکومت ہے۔ مشرق میں دو تین فیصد رقبہ امریکہ نواز جنگجوئوں کے پاس ہے اور 55 فیصد رقبے پر بشار الاسد کی حکومت کا کنٹرول ہے۔ حالیہ عرصے میں تحریک مزاحمت دمشق کے جنوب میں پھر سے متحرک ہو گئی ہے۔
ایران اور اسرائیل کے بیچ__ شام!
Nov 26, 2024