بیلا روس کے صدر کا دورہ، بامقصد مذاکرات کی ضرورت اور احتجاج میں سرکاری وسائل کا استعمال!!!!!

Nov 26, 2024

محمد اکرم چوہدری

پاکستان اور بیلا روس کے مابین تعلقات مضبوط ہو رہے ہیں۔ یہ کوئی مثالی وقت تو نہیں ہے کیونکہ ایک وقت بیلا روس کے صدر ہے ساتھ بڑی تعداد میں اہم غیر ملکی شخصیات پاکستان کے دورے پر ہیں۔ دوسری طرف ملک میں ہنگامے ہیں، خیبر پختونخوا کی حکومت سرکاری وسائل استعمال کرتے ہوئے وفاق پر چڑھائی کر چکی ہے۔ ملک کو میدان جنگ میں بدلنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ کئی روز سے نظام زندگی معطل ہے، انٹرنیٹ کے ساتھ جڑے تمام کام بڑی طرح متاثر ہو رہے ہیں، ایمبولینس راستے میں پھنس جاتی ہے، مزدوروں کو کام نہیں مل رہا، بچے سکول نہیں جا ہا رہے، امتحانات الگ سے متاثر ہیں، گھر سے نکلنے والوںکو خوف ہے کہ منزل پر پہنچیں گے یا نہیں جو کسی جگہ پہنچ گئے ہیں وہ اس سوچ میں رہتے ہیں کہ نجانے بروقت گھر واپس پہنچ پائیں گے یا نہیں غرضیکہ ہر کوئی اپنی اپنی جگہ حیران و پریشان ہے۔ حکومت کوشش کر رہی ہے کہ کسی بھی طریقے سے احتجاج بھی ہو جائے اور بڑے نقصان سے بھی بچا جائے، مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال سب سے آسان راستہ ہے۔ حکومت نے اب تک اس سے یوں گریز ضرور کیا ہے کہ آئی جی پنجاب کے مطابق لگ بھگ سوا سو پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں جبکہ ایک شہادت بھی ہوئی ہے۔ سو یہ حالات ایسے تو نہیں کہ بیلا روس کا بڑا وفد جس کی قیادت ان کے صدر کر رہے ہیں ان سب لوگوں کو یہ خبر نہ ملتی ہو کہ پاکستان میں اندرونی طور پر کیا ہو رہا ہے، ساری حکومت کن کاموں میں مصروف ہے۔ رات گئے تک حکومت اور مظاہرین میں مذاکرات کی خبریں سامنے آتی رہی ہیں۔ درحقیقت یہ بامقصد مذاکرات کا وقت ہے، اس وقت میں اگر صرف اکٹھے بیٹھے ایک دوسرے کے سامنے مطالبات رکھے اور اپنے اپنے موقف پر قائم رہنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی تو راستہ نہیں نکلے گا۔ اس سارے عمل میں اگر کوئی قابل ذکر بات ہے تو وہ یہ بھی ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت صوبے کے وسائل کو وفاقی حکومت کے خلاف احتجاج کے لیے استعمال کر رہی ہے اور ڈھٹائی سے کر رہی ہے کیا یہ ایک اچھا قدم ہے، کیا مستقبل میں دیگر صوبے بھی وفاق کے خلاف اس عمل کو ایک حوالے کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ اتنی اچھی مثال تو ہرگز نہیں ہے۔ اب بھی یہ خبریں آ رہی ہیں کہ خیبر پختونخوا حکومت نے رواں احتجاج کے دوران بھی سرکاری مشینری استعمال کی ہے ماضی میں ہونے والا احتجاج بھی سرکاری وسائل پر کیا گیا تھا یقینا اس مرتبہ بھی کروڑوں روپے خرچ کیے گئے ہوں گے۔ 
پاکستان تحریک انصاف کے گزشتہ احتجاج میں خیبرپختونخوا کی ریسکیو 1122 کا عملہ، مشینری اور ایمولینسز اسلام آباد لیجانے پر چار کروڑ خرچ ہوئے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس دوران ریسکیو 1122 کی دو بڑی کرینز خراب ہوئیں،کرینز گزشتہ احتجاجوں میں رکاوٹیں ہٹانے کیلئے استعمال کی گئی تھیں۔ ایک کرین خراب حالت میں صوابی دوسری اسلام آباد میں کھڑی ہے۔ کیا یہ اختیارات کا ناجائز استعمال نہیں، کیا یہ سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے کے مترادف نہیں، کیا جمہوریت یہ سکھاتی ہے، کیا یہی درس ہے جمہوریت کا، کیا جمہوریت صرف احتجاج کا ہی نام ہے۔ اگر مظاہرین سڑکوں پر ہے تو ان کی قیادت ذمہ دار ی ہے کہ اس نے اپنے لوگوں کو تکلیف سے بچانا ہے۔ مذاکرات کی کامیابی کے لیے پاکستان تحریک انصاف کی قیادت بھی حکومت سے کم ذمہ دار نہیں بلکہ پی ٹی آئی قیادت کو زیادہ سنجیدگی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ یہ روز روز ملک بند کرنا، سڑکوں پر کنٹینر لگانا کوئی خوشی کا مقام تو نہیں ہے۔ یہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو بھی سوچنا ہے۔ وہ مسلسل تیسری مرتبہ صوبے پر حکومت کر رہے ہیں کیا یہ دور بھی گذرے ادوار کی طرح ہو گا۔ صوبے کو ترقی کرنی چاہیے اس کی تو کرینیں ہی صوبے میں آپریشنل نظر نہیں آ رہی ہیں۔ یہ سب باتیں تو اپنی جگہ ہیں اہم غیر ملکی مہمانوں کی آمد کے موقع پر اس قسم کی احتجاجی سیاست یہ ثابت کرتی ہے کہ ملکی مفاد کی کسی کو فکر نہیں ہے، ملکی مفاد ان لوگوں کے لیے معنی نہیں رکھتا ۔ عدالتی احکامات اپنی جگہ موجود ہیں سو کیا یہ بہتر نہیں کہ جب ملک کے ہر صوبے میں ایک صوبائی اسمبلی ہے، ایک قومی اسمبلی ہے ایک سینیٹ ہے اگر اس نظام کی موجودگی میں بھی ایک صوبائی حکومت کو اپنی وفاقی حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکلنے کی ضرورت پیش آ رہی ہے تو ہر انہیں اسمبلیوں میں بیٹھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ وزیر اعلی خیبر پختونخوا سمیت ان سب کو اسمبلیوں سے مستعفی  ہو کر سیاست کرنی چاہیے کیونکہ یہ ثابت کر چکے کہ اسمبلیوں کا وجود بے معنی ہے۔دوسری طرف پاکستان اور بیلاروس کے درمیان مختلف شعبوں میں دو طرفہ تعاون کے معاہدے طے پا گئے ہیں۔پاکستان اور بیلاروس کے وزرائے خارجہ کی ملاقات میں دو طرفہ امور پر گفتگو کی گئی اور دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی موجودگی میں پاکستان اور بیلا روس کے درمیان مختلف معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔ بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو آج اسلام آباد پہنچ چکے ہیں۔ جبکہ بیلاروس کا اڑسٹھ رکنی وفد تینتالیس بڑی کاروباری شخصیات کے ساتھاتوار کو اسلام آباد پہنچا تھا۔ وفاقی وزیر جام کمال کہتے ہیں کہ پاکستان میں بیلاروس کے ٹریکٹرز پائیداری اور مضبوطی کی علامت سمجھے جاتے ہیں اور یہاں مقامی مارکیٹ میں ان کی طلب بہت زیادہ ہے۔ پاکستان اور بیلاروس علاقائی تجارت اور کنیکٹیویٹی کے فروغ کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم میں شراکت دار بھی ہیں، پاکستان بیلاروس سے ٹیکنالوجی منتقلی اور مشترکہ منصوبوں میں سرمایہ کاری کا خواہاں ہے۔
جام کمال نے کہا کہ پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری کے لیے توانائی، زراعت، آئی ٹی اور دیگر شعبے کھلے ہیں۔بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکا شنکو تین روز کے دورے پر اسلام آباد پہنچ گئے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے نور خان ائیربیس پر بیلا روس کے صدر کا استقبال کیا، بیلا روس کے صدر ستائیس نومبر تک پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں۔ اس دورے سے پاکستان اور بیلا روس کے مابین تجارتی تعلقات مزید مضبوط ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے بھرپور تجارتی سرگرمیوں کی ضرورت ہے۔ ملک میں سیاسی قیادت کو اس انداز میں ضرور سوچنا چاہیے کہ اگر احتجاج اور سیاسی اختلافات کو ایک طرف نہیں رکھیں گے تو ملک کے مسائل حل نہیں ہوں گے اور معیشت مضبوط نہیں ہو گی، کوئی بھی نظام حکومت اس وقت تک ہی چل سکتا ہے جب تک اس کی افادیت باقی رہے اگر کسی نظام حکومت سے فائدے کے بجائے نقصان ہوتا رہے تو پھر منظر نامہ بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔
آخر میں محسن نقوی کا کلام
میں نے دیکھا تھا اْن دنوں میں اْسے
جب وہ کِھلتے گلاب جیسا تھا
اْس کی پلکوں سے نیند چَھنتی تھی
اْس کا لہجہ شراب جیسا تھا
اْس کی زلفوں سے بھیگتی تھی گھٹا
اْس کا رْخ ماہتاب جیسا تھا
لوگ پڑھتے تھے خال و خد اْس کے
وہ ادب کی کتاب جیسا تھا
بولتا تھا زبان خوشبو کی
لوگ سنتے تھے دھڑکنوں میں اْسے
میں نے دیکھا تھا اْن دنوں میں اْسے
ساری آنکھیں تھیں آئینے اْس کے
سارے چہروں میں انتخاب تھا وہ
سب سے گھل مل کے اجنبی رہنا
ایک دریا نما سراب تھا وہ
خواب یہ ہے کہ وہ حقیقت تھا
یہ حقیقت ہے، کوئی خواب تھا وہ
دل کی دھرتی پہ آسماں کی طرح
صورتِ سایہ و سحاب تھا وہ
اپنی نیندیں اْسی کی نذر ہوئیں
میں نے پایا تھا رتجگوں میں اْسے
یہ مگر دیر کی کہانی ہے
یہ مگر دور کا فسانہ ہے
اْس کے میرے ملاپ میں حائل
اب تو صدیوں بھرا زمانہ ہے
اب تو یوں ہے کہ حال اپنا بھی
دشتِ ہجراں کی شام جیسا ہے
کیا خبر اِن دنوں وہ کیسا

مزیدخبریں