احتجاج کی آڑ میں ملک دشمنی!

Nov 26, 2024

حیدر علی

حیدر علی
یوں تو وطن عزیز کی سات دہائی میں کئی نشیب و فراز آئے۔کئی دفعہ ناپاک دشمن نے اس جنت نظیر وطن کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی لیکن الحمداللہ پاکستان کی چٹان صفت مسلح افواج۔حکومت،عوام سب نے یکجاں ہوکر ہمیشہ دشمن کو ناکوں چنے چبوائے۔65ء کی جنگ اتحاد اتفاق یکجاں قوم کی زندہ مثال ہے جب اپنے سے کئی گناہ بڑے دشمن کو پاکستان نے شکست فاش سے دوچار کیا تھا۔آج بھی اس وقت مادر وطن کیلئے قوم کی یگانگت کو یاد کرتے ہوئے آنکھیں بھیگ جاتی ہیں اور دل سے دعا نکلتی ہے کہ "یا رب اس پاک وطن کی غیور قوم.پاک فوج۔حکومت پاکستان سمیت پورے ملک  کی یگانگت کو ہمشیہ قائم و دائم رکھنا اور اس پاک دھرتی کے دشمنوں کو ہمیشہ ناکام و نامراد رکھنا"  یہ دعا کسی ایک پاکستانی کی نہیں بلکہ 65  کی جنگ کے ہیرو،ہمارے بزرگ،مائوں بہنوں سمیت پوری غیور قوم کی دعا ہے۔گزشتہ چند سالوں سے وطن عزیز میں ایک عجیب کلچر پروان چڑھا جس میں نہ کسی کی عزت محفوظ رہی نہ دستار سیاسی احتجاج کی آڑ میں ایسی ایسی واہیات گفتگو کی گئی کہ انسانیت بھی شرما جائے۔ایک سیاسی جماعت نے نوجوانوں کو بجائے اخلاقیات کے بدتمیزی کا ایسا درس دیا کہ بڑے بڑے معزز سیاستدان اور قومی ہیرو بھی ان کا شکار ہوئے۔ایک انسان سے ملک نہیں بلکہ ہم سب سے یہ ملک ہے۔اس جماعت نے 2013ء￿  میں دھرنوں کا آغاز کیا تو اداروں پر حملے کئے معزز ایوان سمیت کئی ملکی عمارتوں پر چڑھائی کی۔پھر جب پاکستان کے سدابہار دوست اور عظیم ہمسایہ ملک چین کے صدر نے پاکستان کا دورہ کرنا تھا تو تب بھی اس جماعت نے خوب واویلا اور شور مچایا جس کی وجہ سے معزز مہمان تاخیر سے پاکستان تشریف لائے۔بعدازاں جب اقتدار میں آئے تو تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کو جیلوں میں ڈال دیا اور جب اپنی باری آئی تو ملک دشمنی میں اس حد تک گر گئے کہ جس کی وجہ سے پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن 9 مئی کا واقعہ رونما ہوا۔احتجاج سب کا جمہوری حق ہے لیکن احتجاج کے بھی کوئی قاعدے اور قانون ہوتا ہے یہ نہیں کہ اپنے قومی ہیروز اور شہداء کی بے حرمتی کی جائے 9 مئی کو پاکستانی شہداء کی یادگاروں کیساتھ جو سلوک کیا گیا وہ ملک دشمنی سے بھی بڑھ کر تھا اتنا نقصان تو ملک دْشمنوں نے بھی نہیں کیا جتنا اس جماعت نے اخلاقی اور احتجاجی سیاست میں پاکستان کا نقصان کیا۔اس حوالے سے گزشتہ روز سینیٹر طلال چوہدری نے بڑی خوبصورت بات کی کہ پاکستان کے اداروں اور اسلام آباد پر دھاوا کہاں کی محب وطنی ہے ؟اور گزشتہ روز جو بیان بشریٰ بی بی نے پاکستان کے دوست ملک سعودی عرب کے حوالے سے دیا ہے کیا یہ بھی محب وطنی ہے ؟ سینیٹر طلال چوہدری نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ بڑی دیر سے ملک کا تماشا بنا رہے ہیں، جب سے یہ جوڑی بنی ہے پاکستان کی سیاست  اور گورننس کو اپنے مفاد کیلئے تہہ بالا کردیا گیا ہے۔ انہوں نے بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ کے حوالے سے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران  پنجاب میں پنکی گوگی کا راج تھا، ہر چیز کی سودے بازی تھی، پوسٹنگ ، ٹرانسفر کے ریٹس مقرر تھے،ایک منڈی لگائی جاتی تھی جس کو پنکی اورگوگی چلاتی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ نہ صرف پنجاب بلکہ وفاق میں بھی شوہر کے وزیراعظم ہوتے ہوئے عہدے کاناجائز استعمال کیا جاتا رہا، کبھی ہیرے کی انگوٹھیاں، پلاٹ اور زمینوں کے سودوں سمیت 190 ملین پائونڈ کھانے کیلئے یونیورسٹی کا جھانسا دیا گیا۔جب پی ٹی آئی حکومت میں تھی تو انہوں نے پنجاب اور وفاق میں جو کھیل کھیلا وہ سب کو معلوم ہے۔ اس وقت پی ٹی آئی کی سیاست غیر سیاسی لوگوں کے ہاتھ میں ہے، پہلے چند وکلاء نے ان کی سیاست کو تباہ کیا اور اب چند گھریلو خواتین کے ہاتھ میں پی ٹی آئی کی باگ ڈور ہے، خواتین پارٹی پر قبضے کیلئے نئے سے نئے کھیل کھیلنا شروع ہوچکی ہیں۔اس وقت  اس جماعت کا خصوصی نشانہ وہ دوست ممالک ہیں جو مشکل ترین حالات میں پاکستان کی مدد کرتے ہیں۔اسی پارٹی کے بانی نے چین اور ان کے دیئے گئے پراجیکٹس پر کرپشن پر الزام لگایا ، صرف اس لئے کہ چین سے تعلقات خراب ہوں، بعد ازاں اس پر معافی بھی مانگی۔ اسی طرح سعودی عرب  ہر مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوتا ، جان بوجھ کر اس کو نشانہ بنایا جاتا ہے، پہلے افضل مروت نے یہ بیان دیا اور یہ بیان بانی سے ملاقات کے بعد دیا تھا اور اب ان کی گھر والی اور جانشین نے بیان دیا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر جب پاکستان کے 
دوست ملک صدر اب پھر وطن عزیز پاکستان کا دورہ  پرہیں ایسے میں حالات خراب کرنا سب سے بڑی ملک دشمنی ہے۔آج وقت کا تقاضا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اس بے بنیاد اور ایسے حساس موقع پر احتجاج کی حوصلہ شکنی کریں۔عوام کب تک احتجاج احتجاج میں پھنسے رہیں گے۔اب احتجاجوں کی ضرورت نہیں عوام کو ریلیف چاہیے اور ریلیف تب ملے گا جب یہ فتنہ پرور سیاسی بونوں کا مکمل بائیکاٹ کیا جائیگا۔عوام نے تو 8 فروری کو انہیں مسترد کردیا ہے لیکن سیاسی ایوانوں سے بھی مکمل طور پر ان کا بائیکاٹ ضروری ہے وگرنہ یہ احتجاجی سیاست ملک کو مزید انتشار کی جانب لے جائے گی۔

مزیدخبریں