”زندہ دلانِ لاہور“ بمقابلہ ”ڈینگی ماسکیٹوز“

واقعات سے معلوم ہوا ہے کہ ڈینگی مچھر ایک بار پھر پاکستان کی حدود میں داخل ہو گئے ہیں اور آج کل زندہ دلانِ لاہور کو بھی اپنا ہدف بنائے ہوئے ہیں مگر سالہائے، رفتہ و گزشتہ میں ڈینگی ماسکیٹوز نے جو اٹیک کرنے کی کوشش کی تھی اس میں بھی زندہ دلان لاہور نے انتہائی دفاعی انتظامات، سامان تحفظ اور بر وقت علاج معالجے کی سہولت فراہم ہو جانے کے باعث ان کو شکست فاش دی تھی چنانچہ اب کی مچھروں کا حملہ زیادہ زور دار، خوفناک اور دہشت افزا نہیں ہے کیونکہ پنجاب حکومت بھی پورے لاہور میں مچھر مار سپرے کرانے کی بڑھکیں مار رہی ہے جس سے لاہوریوں کا حوصلہ بھی بلند ہو جاتا ہے اور مچھر بھی پَرّا باندھ کر حملہ آور ہو جانے کی جسارت نہیں کر رہے ہیں مگر جیسا کہ خبریں آ رہی ہیں12سو مچھر مار لاہوریوں کو ڈینگی ماسکیٹوز نے ہسپتال پہنچا دیا ہے، جہاں ان کی فوری طبی امداد جاری ہے اور سرکاری سطح پر مفت ادویات فراہم کرکے بڑی توجہ سے ان کا علاج کیا جا رہا ہے چنانچہ بہت سے مریض یا ڈینگی ماسکیٹوز کا شکار لاہوریئے صحت مند ہو کر اپنے گھروں کو بھی آ رہے ہیں اور لاہور کا پرنٹ اینڈ الیکٹرانک میڈیا لوگوں کا حوصلہ بلند رکھنے اور ان کو حقیقی صورت حال سے آگاہ رکھنے کے باب میں پوری طرح متحرک ہے اور نہایت ذمہ داری سے لوگوں کو خائف ہونے سے محفوظ کر رہا ہے کیونکہ مچھر لوگوں کو اتنا مجروح نہیں کر سکتے جتنا مضمحل لوگوں کو خوف کر سکتا ہے چنانچہ حکومت پنجاب بھی زندہ دلان لاہور کے تحفظ میں اخبارات میں شائع ہونے والے اشتہارات کی حد تک میدان میں اتر آئی ہے اور اس نے جہاں اس حقیقت کو واضح کر دیا ہے کہ بر وقت تشخیص اور مکمل علاج سے ڈینگی بخار کا شکار ہو جانے والے انسان کو بھی محفوظ کیا جا سکتا ہے وہاں احتیاطی تدابیر اور علاج و حفظان صحت کے باب میں لوگوں کو وہ ہدایت بھی جاری کر دی ہے کہ صاف پانی کے برتن مثلاً گھڑے، ڈرم، ٹینکی اور دیگر ایسے مقامات کو بھی جہاں صاف پانی رکھا جا سکتا ہے، قطعی طور پر ڈھانپ کر رکھا جانا چاہئے۔ اس طرح گاڑیوں کے پرانے ٹائروں کو ایسے مقامات پر اور اس طرح نہ رکھا جائے کہ وہ ڈینگی مچھروں کی پرورش کے کام آنے لگے۔ موسم گرما کا اختتام ہو چکا ہے چنانچہ آج کل کولر اور روم کولر چلانے کی ضرورت باقی نہیں رہی لہٰذا روم کولرز میں پانی بھی نہ رہنے دیا جائے بلکہ ان کو بالکل خشک اور صاف کرکے مچھروں کے لئے بیکار بنا دیا جائے، اس طرح گملوں اور پودوں کی کیاریوں میں بھی پانی جمع نہ ہونے دیا جائے کیونکہ ٹھہرا ہوا پانی متعفن ہو جاتا ہے اور ڈینگی مچھر واقعی تعفن پسند ثابت ہوئے ہیں۔ پھر حیران کن بات وہ ثابت ہوئی ہے کہ طلوع و غروب آفتاب کے وقت ڈینگی ماسکیٹوز انسان کے چہرے اور جسم پر بھرپور حملہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان اوقات میں گھات لگا کر بیٹھ جاتے ہیں لہٰذا ڈینگی بخار سے محفوظ رہنے کا ایک موثر اقدام وہ بھی ہے کہ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت لاہوریئے اپنے چہروں کو ڈھانپ کر رکھیں اور اجسام کو بھی ملبوس کر دیا کریں، پھر جسم کے ان حصوں پر ”مچھر بھگاﺅ لوشن“ استعمال کیا جائے جو سارا دن ڈھانپے نہیں جا سکتے اور اس حقیقت کو ملحوظ رکھا جائے کہ وہ لوشن حکومت پنجاب کی کسی فیکٹری میں تیار نہیں ہوتا ہے کہ اپوزیشن والے اسے استعمال کرنے سے گریزاں رہیں۔ پارکوں اور باغوں اور باغیچوں میں سیر کرتے وقت بھی بازو اور جسم ڈھانپ کر رکھیں پھر رات کو سوتے وقت مچھر مار سپرے کر لیا کریں اور احتیاطی تدابیر پر عمل کرتے ہوئے صبح و شام گھروں کے دروازے اور کھڑکیاں بند رکھی جایا کریں، ان احتیاطی تدابیر کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا ہو گا کہ ڈینگی بخار کی ابتدائی علامات میں تیز بخار اور فلو شامل ہیں۔ جسم کی جلد پر خارش ہونے لگتی ہے اور سرخ دھبے بھی ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ سر اور آنکھوں سے درد ہو جاتا ہے، جسم اور جوڑوں میں درد ہو جانے کے علاوہ ابکائیاں بھی آنے لگتی ہیں، حکومت پنجاب کے محکمہ صحت نے پرائیویٹ ہاسپٹلز، کلینکس اور لیبارٹریز سے کہا ہے کہ ڈینگی کے مریضوں کے بارے میں فون نمبر 042-99200970 اور فیکس نمبر99200679 اور 99201142 پر محکمہ صحت کو فوراً اطلاع دی جائے حالانکہ 24اکتوبر2010ءکی رات ٹیلی ویژن چینلز اس حقیقت کو کھول کھول کر بیان کرتے رہے ہیں کہ لاہور کے 90 فیصد حصوں میں مچھر مار سپرے نہیں کیا گیا ہے ۔ بنا بریں ڈینگی پھیلا ہے مگر خادم اعلیٰ پنجاب کو سب ٹھیک ہے کی اطلاع دی جا رہی ہے۔

ای پیپر دی نیشن