بارک حسین اوباما نے سٹریٹجک مذاکرات کرنے امریکہ گئے وفد کے ارکان کو خصوصی ملاقات میں بتایا تھا کہ ”آصف علی زرداری کے دور میں پاک امریکہ تعلقات بہتر ہوئے ہیں“ معلوم نہیں ہم عوام کے ساتھ آصف علی زرداری کے تعلقات بہتر بنانا بھی ان سٹریٹجک مذاکرات میں شامل تھا یا نہیں؟ رائے ونڈ کے جمہوری تبلیغی مرکز والے میاں جی لندن میں دو ہفتے کا چلہ کاٹ کر واپس تو آ چکے ہیں شاہ محمود قریشی ان مذاکرات کے بارے میں اعتماد میں بھی آ چکے ہیں لیکن اس بارے میں انہوں نے بھی کچھ نہیں بتایا تادم تحریر اس بارے میں کہ بارک حسین اوباما نے ان کے برادر خوردبرد آصف علی زرداری کے ہم عوام سے بھی تعلقات بہتر بنانے کا حکم دیا ہے یا نہیں۔ حمزہ شہبازشریف صاحب نے اس مفاہمتی فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے انکشاف فرمایا تھا کہ ”قومی سیاست میں صدر آصف علی زرداری کی حیثیت خودکش بمبار کی ہے سسٹم کی بقا کے لئے ضروری ہے کہ صدر نے جو خودکش جیکٹ پہن رکھی ہے اسے ڈیفیوز کیا جائے ”یعنی عدلیہ اور حکومت کے درمیان اس مزید مفاہمت کے باوجود جس پر سید اور گیلانی نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے اپنی کامیابی قرار دیا تھا سسٹم کےلئے خطرہ بدستور موجود ہے۔ میاں صاحب صرف اور صرف سسٹم کو بچانے اور چلانے کے لئے پونے تین سال سے آصف شاہی کے ساتھ فرینڈلی اپوزیشن اور ملک کے سب سے بڑے صوبے پر مشترکہ حکومت کرتے آ رہے ہیں لیکن اگر اداروں کے درمیان ملک کی خوشحالی کے لئے کی گئی اس مفاہمت کے باوجود سسٹم خطرے میں ہی ہے تو میاں جی کا فرض ہے کہ وہ صدر آصف علی زرداری کی مدد کریں اور تعاون کریں اس خودکش جیکٹ کو ڈیفیوز کرنے میں اس سے اوباما اور پاکستان میں امریکہ کی خاتون سفیر بھی لازماً ان سے مزید خوش ہو جائیں گے کہ ان کے یعنی آصف علی زرداری کے دور میں باوردی آمر پرویز مشرف کے دور سے بھی پاک امریکہ تعلقات زیادہ بہتر ہو چکے ہیں۔ اس حوالے سے اس جیکٹ کو ڈیفیوز کرنا اوباما اور ان کی پاکستان میں متعین خاتون سفیر کی بھی اولین ضرورت ہے۔ ڈینگی مچھروں کے کونوں کھدروں سے نکل کر ہر سو پھیل جانے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں بھی اداروں میں تصادم کرانے والوں کی سازشیں ناکام ہو جانے پر خوشی ہوئی ہے اور وہ مبارک بادیں دینے گھر گھر پہنچ گئے ورنہ اس سے پہلے وہ کبھی بھی اس طرح جتھے بنا کر سوئے ہوئے عوام اور ان کے خادموں کو جگا جگا کر مبارکبادیں دینے نہیں آئے تھے اس مفاہمت برائے خوشحالی کو جاری رکھ کر ملک کو خوشحال بنانے میں شریفین غریبین کا عملی کردار بہت اہم ہے اور ہو گا ان کی لیگ قومی اسمبلی میں دوسری بڑی نمائندہ پارٹی ہے پارلیمنٹ کی آئینی کمیٹی میں ان کی بھرپور نمائندگی ہے قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی قیادت کا اعزاز اس جماعت کو حاصل ہے اگر انہوں نے ججوں کی بحالی کے طریق کار پر نظرثانی کے مسئلے پر بھی وہی فرینڈلی رویہ اختیار کیا جو سوئس عدالتوں کو خط لکھنے کے عدالت عالیہ کے حکم پر عملدرآمد کرانے کے معاملے میں اختیار کئے ہوئے ہے دس ماہ سے ہے تو حضرت اور مولانا فضل الرحمن اور گاندھی گدی والے اسفند یار ولی تو ہیں ہی آصف علی زرداری کی خودکش جیکٹ کے بٹن شن ۔ پیر الطاف حسین کا انقلاب بھی وزیراعلیٰ سندھ کے در دولت پر ہی متھا رگڑ رگڑ کر بے جان سا ہو چکا ہے اور وہ جو محترم پارلیمنٹ ہے وہ بے چاری بھی اسی تنخواہ پر کام کرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکے گی جس پر پونے تین سال سے کرتی آئی ہے۔ عوام کی نمائندہ ہونے کی دعویداروں بی بی پارلیمنٹ جس نے ہم بھی عوام کی بجائے اس عذاب اعلیٰ کے لانے والوں سے ہی ہمیشہ مفاہمت کی ہے جس میں ہم مبتلا ہیں کہ اس کی نکلیں اس کے پاپی پیٹ کے اور نظام کے مالکوں کے ہاتھوں میں ہیں وہ تو یہی عرض گزارے گی کہ
مفاہمت الجھی سلجھا جارے بمبار ........... میں نہ اٹھاوں گی ہاتھ رے