سیلاب کے باعث معیشت کو چیلنجز کا سامنا‘ مہنگائی کی شرح 14.5 فیصد رہے گی‘ 2011ءکے اہداف‘ ترجیحات پر نظرثانی کی جائے : سٹیٹ بنک

Oct 26, 2010

سفیر یاؤ جنگ
اسلام آباد ( مانیٹرنگ نیوز + ایجنسیاں) سٹیٹ بنک آف پاکستان نے معاشی جائزہ رپورٹ2009-10 جاری کردی ہے۔ رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال سیلاب کے باعث معیشت کو چیلنجز کا سامنا ہے۔ جس کے باعث معاشی شرح نمو ہدف سے کم رہنے اور مالیاتی خسارہ ہدف سے تجاوز کرنے کا امکان ہے۔ 2010-11 میں جی ڈی پی کی حقیقی شرح نمو 2 سے 3 فیصد جبکہ مہنگائی کی شرح 13.5 سے 14.5 فیصد تک رہنے کی توقع ہے۔ مالی خسارہ 6 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ 2009-10 میں جی ڈی پی کی شرح 4 فیصد رہی۔2007ءسے 2010ءکے دوران حکومتی قرضوں کا حجم دو گنا ہو گیا۔2009-10 کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ مسلسل تیسرا سال ہے جس میں حکومت نے مالیاتی ذمہ داریوں اور قرضوں میں کمی کے قانون کی خلاف ورزی کی۔ سبسڈی اور سرکاری اداروں میں خسارہ حکومت کی مارکیٹ میں مداخلت کا اشارہ ہے۔ رواں کھاتوں کا خسارہ مالی سال2010-11 میں مجموعی پیداوار کا 4 فیصد رہنے کا امکان ہے2009-10 میں مالیاتی خسارہ49.1 فیصد رہا۔ مالیاتی خسارے میں 50 فیصد حصہ بجلی کی سبسڈی کا رہا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2009-2010ء(مالی سال 10) کے دوران پاکستان کے مجموعی معاشی اشاریوں میں نمایاں بہتری ہوئی، معیشت میں 4.1 فیصد کی شرح سے نمو ہوئی جو مالی سال 2009ءمیں صرف 1.2 فیصد تھی۔ سالانہ گرانی اور جاری حسابات کے خسارے میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ زرمبادلہ کے ذخائر سال کے دوران تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئے۔ معیشت کی بنیادی ساختی کمزوریاں جوں کی توں ہیں۔ مثال کے طور پر اہم اصلاحات کا بھرپور آغاز نہیں ہوسکا: (1) مسلسل اختلافات کی وجہ سے وسیع البنیاد جی ایس ٹی کے ذریعے ٹیکس نیٹ کی مجوزہ توسیع ملتوی ہوگئی، (2) کارکردگی بہتر بنانے اور مالیاتی بوجھ کم کرنے کے لئے سرکاری شعبے کے اداروں کی مجوزہ تشکیل نو نہ ہوسکی (3) کچھ ابتدائی کام کے بعد توانائی کے شعبے کے قرضے کا مسئلہ (جسے ’سرکلر ڈیٹ‘ کہا جاتا ہے) حل کرنے یا بجلی کی فراہمی میں نمایاں بہتری لانے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ مالیاتی خسارہ دوبارہ بڑھ کر جی ڈی پی کا 6.3 فیصد ہو گیا جو گذشتہ سال سے 1.1 فیصد درجے زیادہ ہے۔ 2010ءکی مالیاتی کارکردگی کچھ اس طرح رہی کہ مالیاتی اور نیم مالیاتی کارروائیوں میں مسلسل توسیع ہوئی جس کے باعث نجی شعبے کی سرگرمیوں کے لئے کوئی گنجائش نہیں رہی، مستقل دو ہندسی گرانی کو تقویت ملی 2010ءمیں مجموعی سرکاری قرضے بڑھ کر جی ڈی پی کے 69.5 فیصد ہو گئے 2009ءمیں یہ جی ڈی پی کے 68.7 فیصد تھے۔ 2011ءکے متعدد معاشی اہداف کو سال کے ابتدا میں سنگین دھچکا لگا جب ملک کا بڑا علاقہ طوفانی بارش اور عدیم النظیر سیلاب کی زد میں آگیا۔ سیلاب سے ملک کی اہم زرعی اراضی سب سے زیادہ متاثر ہوئی خریف کی کھڑی فصلوں (مثلاً کپاس، چاول اور گنا) اور مویشیوں کو خاصا نقصان پہنچا۔ معیشت کو انفراسٹرکچر (پل، سڑکیں، گیس اور بجلی کے پلانٹس اور بعض صنعتی یونٹوں مثلاً چاول کی ملوں اور جننگ فیکٹریوں وغیرہ) کو وسیع پیمانے پر ہونے والا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ رسد میں رکاوٹ اور بڑی تعداد میں لوگوں کے بے گھر ہونے سے جو پیداواری نقصانات ہوئے وہ الگ ہیں۔ یہ مضمرات کئی سال تک معیشت کو دباو میں رکھیں گے یہ واضح ہے کہ 2011ءکی ترجیحات اور اہداف پر نظر ثانی کرنا پڑے گی امکان ہے کہ تمام اہم معاشی اشاریوں میں بگاڑ دیکھا جائے گا۔ مالیاتی خسارہ حسابات کا خسارہ بالترتیب جی ڈی پی کا 5 سے 6 فیصد اور 3 فیصد سے 4 فیصد کے درمیان رہنے کا امکان ہے۔ ترسیلات زر 9.5 بلین ڈالر سے 10.5 بلین ڈالر کے درمیان رہنے اور برآمدات اور درآمدات بالترتیب 20 بلین ڈالر سے 21 بلین ڈالر اور 34 بلین ڈالر سے 35 بلین ڈالر کے درمیان رہنے کا امکان ہے۔ سیلاب کے اثرات نے 2011ءمیں گرانی کی توقعات کو تقویت دی۔ سٹیٹ بینک کے تخمینوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیلاب کی بنا پر آنے والے رسدی دھچکے کا براہ راست اثر محدود رہنے کا امکان ہے۔ جب رسد بہتر ہوگی اور تازہ فصلیں (مثلاً سبزیاں) بازار میں آئیں گی تو سیلاب/بارش کے نقصانات اور چھوٹی فصلوں کی قلت کے اثرات 2 سے 3 ماہ سے زیادہ برقرار رہنے کی توقع نہیں۔ اسی طرح ملکی نرخوں میں اضافہ عالمی قیمتوں کی پست سطح کی وجہ سے رک جائے گا۔بیشتر مجموعی اقتصادی متغیرات کے بگڑنے سے مالی سال 2011ءمیں زری امور پر مباحثہ مزید پیچیدہ ہوجائے گا۔ ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ مرکزی بینک کو گرانی کے بڑھتے ہوئے دباو اور مالیاتی خسارے میں بے جا اضافے پر ردعمل ظاہر کرنا چاہئے۔ دوسری طرف سیلاب کے نقصانات سے ابھرنے والے طلبی دھچکے کی بنا پر یہ استدلال سامنے آتا ہے کہ لڑکھڑاتی ہوئی معیشت کو بحالی میں مدد دینے کے لئے زری پالیسی نرم کرنی چاہئے۔ سیلاب سے آنے والے منفی دھچکوں نے معیشت میں موجودہ ساختی کمزوریوں کو مزید نمایاں کردیا ہے۔ ان کی درستگی کے لئے معاشی انضباط میں بہتری لانے کے علاوہ معیشت کی لچک کو بہتر بنانے کے لئے مسلسل اصلاحات کی ضرورت ہوگی۔
مزیدخبریں