مونس کا الگ ٹرائل کیسے کیا گیا‘ ظفر قریشی سے عدم تعاون سنگین معاملہ ہے‘ عدالتیں کمزور نہیں‘ احکامات پر عمل کرانا آتا ہے: چیف جسٹس

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے این آئی سی ایل سکینڈل میں صرف ایک ملزم مونس الہی کے دیگر ملزمان سے علیحدہ ٹرائل پر استفسار کیا ہے کہ پورے کیس میں صرف ایک ملزم کا علیحدہ ٹرائل کیسے ہو گیا جبکہ کیس کے تحقیقاتی افسر ظفر قریشی کے ساتھ تعاون نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کیا ہے اور اس کو ایک سنگین معاملہ قرار دیا ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس افتخار محمد چودھری نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم دو تین سال سے کیوں خواری کر رہے ہیں اگر آپ نے اسی طرح لوگوں کو بری کروانا ہے تو ہمیں بتا دیں عدالتیں اتنی کمزور نہیں ہیں کیس نیب کو بھیج دیتے ہیں اور ڈی جی کو بھی دیکھ لیں گے۔ عدالت نے تفتیشی افسر ظفر قریشی سے عدم تعاون پر سیکرٹری داخلہ‘ ڈی جی ایف آئی اے‘ ایف آئی اے کے لاہور کے ڈائریکٹر وقار حیدر‘ ایڈیشنل ڈائریکٹر لیگل لاہور ذوالفقار علی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ایک ہفتے میں وضاحت طلب کر لی ہے جبکہ آئندہ سماعت کے لئے اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کر دئیے ہیں۔ دریں اثنا ڈی جی ایف آئی اے سے بیرونی اثاثوں سے متعلق رپورٹ گم کرنے پر بھی وضاحت مانگی گئی ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ مونس الہی کی جانب سے ڈاکٹر بابر اعوان پیش ہوئے اور انہوں نے عدالت کو بتایا کہ چونکہ ان کا موکل عدالت سے رہا ہو چکا ہے اس لئے وہ ظفر قریشی سے تفتیش تبدیل کرنے کی درخواست پر وقتی طور پر دلائل نہیں دیں گے۔ عدالت کے روبرو سابق سیکرٹری داخلہ چودھری قمر زمان‘ سابق ڈی جی ایف آئی اے ملک محمد اقبال سمیت عبدالرﺅف چودھری اور وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری خوشنود لاشاری کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی پر عدالت نے آفس کو ہدایت کی ہے کہ وہ ان افسران کی جانب سے داخل کردہ جواب کی کاپیاں اٹارنی جنرل کے سپرد کر دیں۔ ظفر قریشی کیخلاف چودھری شجاعت کی جانب سے دائر درخواست پر ان کے وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ انہیں موکل سے ہدایات لینے کیلئے مہلت دی جائے جس پر عدالت نے تمام مقدمات کی سماعت 2 نومبر تک ملتوی کر دی۔ سماعت کے موقع پر سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے اور این آئی سی ایل کیس میں تحقیقاتی افسر ظفر قریشی نے عدالت کو بتایا کہ ان کے ساتھ عدالتی احکامات کے مطابق تعاون نہیں کیا گیا جس کے باعث وہ 30 ستمبر تک اپنی تحقیقات مکمل نہیں کر سکے اور نہ ہی حتمی چالان پیش کر سکے جس کی وجہ سیکرٹری داخلہ اور ڈی جی ایف آئی اے کا عدم تعاون ہے حالانکہ میں نے سیکرٹری داخلہ اور ڈی جی ایف آئی اے کو گیارہ خط بھی لکھے جن کا کوئی مثبت جواب نہیں دیا گیا تمام تر کوشش کے باوجود تحقیقات میں تعاون نہیں کیا گیا۔ ظفر قریشی نے عدالت کو بتایا کہ مونس الہی کی منجمد کی گئی سوا دو کروڑ روپے کی رقم بھی ریلیز کر دی گئی یہ رقم ریلیز کرنے میں لاہور کے ڈائریکٹر ایف آئی اے وقار حیدر اور ایڈیشنل ڈائریکٹر لیگل ذوالفقار علی نے معاونت کی‘ لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ سیکرٹری داخلہ نے مختلف حربے استعمال کئے کہ تحقیقات کو طوالت دی جائے۔ ڈائریکٹر لیگل ایف آئی اے اعظم خان نے عدالت کو بتایا کہ ظفر قریشی ریٹائر ہو گئے ہیں مگر تحقیقات میں وہی ٹیم کام کر رہی ہے جو ظفر قریشی کے ساتھ تھی این آئی سی ایل کیس میں 42 کروڑ روپے کی ریکوری کرنا باقی ہے۔ ظفر قریشی نے عدالت کو بتایا کہ برطانیہ کی تحقیقاتی ایجنسی سوکا کی ملزمان کے بیرونی اکاﺅنٹس سے متعلق رپورٹ ایف آئی اے آفس اسلام آباد سے غائب کر دی گئی ہے جس کے باعث مونس الہی کے بیرون ملک بنک اکاﺅنٹس کے بارے میں معلومات نہیں مل سکیں۔ عدالت نے اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے کے دفتر سے سوکا کی اصل رپورٹ کیسے غائب ہو گئی چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی احکامات پر عمل کیوں نہیں کیا گیا عدالتیں کمزور نہیں ہوئی ہیں ڈی جی سے نمٹ لیں گے معاملہ بہت سنگین ہے کیس کے جو دیگر ملزمان بغیر ٹرائل کے جیل میں پڑے ہیں ان کا کیا قصور ہے انصاف تو سب کیلئے برابر ہے۔ اس موقع پر ظفر قریشی نے عدالت کو بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ نے حبیب اللہ وڑائچ کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیا تھا لیکن اس کو ملک سے باہر بھجوا دیا گیا۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب یہ کیا ہو رہا ہے اس کے جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا ان کو کچھ بھی معلوم نہیں ہے مجھے رپورٹیں ہی نہیں دی گئیں۔ ثناء نیوز کے مطابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالتوں کو اپنے احکامات پر عملدرآمد کرانا آتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بڑی سنگین باتیں ہیں ان کا جائزہ لیا جائے گا اور جن لوگوں کا ٹرائل ابھی تک شروع ہی نہیں کیا گیا ان کے کیس بھی چلنے چاہئیں تاکہ کوئی بے قصور جیل میں پڑا نہ رہے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو طلب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے تو اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ان کو اس بارے میں علم ہی نہیں ہے کیونکہ انہیں ابھی تک کوئی رپورٹ موصول ہی نہیں ہوئی جس پر عدالت نے دفتر کو ہدایت کی کہ تمام رپورٹس کی کاپیاں اٹارنی جنرل کو فراہم کی جائیں۔ عدالت نے افسران کو حکم دیا کہ ایک ہفتہ کے اندر اندر اپنے تحریری جوابات عدالت میں جمع کرائیں۔

ای پیپر دی نیشن