جب ایک فون پر ہمارے ایک سابق صدر نے ہمیں خون کے دریا میں دھکیل دیا، اور خود ساحل پر جا بیٹھا تو اس روز سے ہی ہمارے لئے روز قیامت شروع ہو گیا۔ پاکستان کے موجودہ حکمران اب ایوان صدر سے ایک ایسا نعرہ مستانہ بلند کریں کہ وائٹ ہاﺅس کے کنگرے ہل جائیں۔ ایک زمانہ بیت گیا کہ ہم ظالم کے ظلم کا ساتھ خود اپنے خلاف دے رہے ہیں۔ دنیا کی کوئی ایسی ریاست نہیں جو اتحادی ہو کر بھی امریکہ کو اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے دے یا اپنی فوج پر شب خون مارنے دے اور محض زبانی کلامی احتجاج تک محدود رہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا یہ مطلب نہیں کہ فرنٹ لائن اتحادی ہی کو نشانہ بنایا جائے۔ یہ بات چشم کشا ہے کہ آج امریکی انتخابی مباحثوں کی ہار جیت کا دارومدار اس بات پر ہے کہ دونوں حریفوں میں سے کون زیادہ پاکستان دشمن ثابت ہو گا۔ ڈرون حملوں اور ہمارے ایٹمی اسلحے کو ہائی جیک کرنے پر مٹ رومنی اور اوباما متفق ہو چکے ہیں۔ امریکی صدارتی امیدوار گویا ہماری لاشوں پر سیاست کر رہے ہیں اور ہماری جانب سے سر اٹھا کر کوئی یہ کہنے والا نہیں کہ ہم نے بہت ڈومور پر عمل کر لیا اب نومور ہمارا جواب ہے اور خدارا اتنی ہمت و جرات دکھا دینی چاہئے کہ امریکہ کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان مزید اتحادی کا کردار ادا نہیں کر سکتا۔ امریکہ کے لئے اتنی قربانیوں اور کارناموں کے بعد بھی اگر وہ بھارت کا سگا ہے، اور بھارت کی ریاستی دہشت گردی کو ختم کرنے میں کوئی قدم نہیں اٹھاتا، تو ہمیں بھی امریکہ کے حق میں اٹھنے والے اپنے قدم روک لینے چاہئیں۔ ڈرون حملوں میں شب و روز بے گناہ قبائلی پاکستانی مارے جا رہے ہیں، ہزاروں ملالائیں وزیرستان کی چٹانوں تلے بے گور وکفن پڑی ہیں لیکن ایک سٹنٹ کو اتنی ہوا دی گئی کہ مزید ملالائیں، مارنے کا جواز پیدا ہو۔ کیا ڈالروں کے عوض ہم اپنی عزت حرمت، خود مختاری اور اپنے ریاستی وجود کو خطرے میں ڈالنے کے لئے تیار ہیں؟ جب سے پاکستان بنا ہے، امریکہ سے دوستی نبھا رہا ہے، اور امریکہ ہمارا لہو نچوڑ رہا ہے۔ اگر وہ ہمارے ساتھ مخلص ہوتا تو ہماری شہ رگ واگزار کرانے میں ہمارے ساتھ کھڑا ہوتا مگر اس نے بھارت کو دفاعی لحاظ سے مزید مضبوط کیا اور پاکستان پر دباﺅ ڈالا کہ وہ بھارت ہی سے بجلی خریدے، تجارت کرے، امن آشا کو بڑھائے، اور افغانستان کو بھارت جانے تک راہداری دے۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ پاکستان کو بھارت سے جبری تجارت میں اربوں کا نقصان ہوا ہے لیکن مسلسل مطالبہ ہے کہ بھارت کے سامنے ہی سر تسلیم خم کریں اور بے حد افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں میں رتی بھر غیرت نہیں کہ وہ یہ شرط امریکہ بھارت کے سامنے رکھ دے کہ سب سے پہلے کشمیر پھر کوئی اور بات زیر غور لائی جا سکتی ہے۔ ایک معذرت خواہانہ خارجہ پالیسی ہے، جس نے پاکستان کو کاغذی و لفظی احتجاج تک محدود کرکے رکھ دیا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ ہماری جانب سے کوئی مطالبہ نہیں۔ ظاہر ہے ایک ایسی گاﺅدی قیادت کو ڈومور کا حکم نہ دیا جائے تو اور کس حمایت کی توقع کی جا سکتی ہے۔ پاکستان کی افواج جمہوری قاعدے کے مطابق صدر کے احکامات کی تابع ہیں لیکن اس طاقت کو امریکہ اپنے مقصد کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ اب گیند صدر کی کورٹ میں ہے۔ ڈرون حملوں میں ملالہ کے سانحے کے بعد مزید تیزی کیوں آئی؟ شمالی وزیرستان میں آپریشن کے حوالے سے دباﺅ میں کیوں اضافہ ہوا یہ اپنی جگہ ایسے سوال ہیں جن کے جواب ہماری قیادت کے پاس ہیں، اور ان کا مداوا بھی۔ آج اگر ہمت کرکے امریکہ کے اتحادیوں کی صف میں سے خروج اختیار کیا جائے تو یہ ڈرون حملے بند ہو سکتے ہیں کیونکہ پھر یہ کہا جا سکے گا کہ ایک بیرونی قوت کو کوئی حق نہیں کہ وہ ایک انچ بھی ہماری سرزمین میں داخل ہو کر کوئی پٹاخہ بھی چلا سکے۔ پاکستان اگر مسائلستان بن چکا ہے اور داخلی انتشار بھی بڑھتا جا رہا ہے تو اس کی وجہ بھی امریکہ کا اس خطے میں داخل ہونا اس کا سبب ہے کیونکہ بیرونی پاکستان دشمن ایجنسیوں کا اژدھام ہے اور وہ ڈالرز نچھاور کرکے مقامی محروم و جرائم پیشہ لوگوں کو بھی استعمال کر رہے ہیں۔ کراچی کے بگاڑ میں حکومت کی اتحادی جماعتوں کا ہاتھ ہے لیکن ان کو اس لئے نہیں روکا جا سکتا کہ حکومت کی اپنی صحت خراب ہونے کا اندیشہ ہے لیکن جو سیناریو بنتا جا رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے حکومت اس خطرے کو بھانپنے کی کوشش کرے کہ مزید بے جا امریکہ نوازی کی گئی تو انتخابات بھی مخدوش ہو سکتے ہیں۔ اگر اسی طرح معذرتوں پر ہی گزارہ کرنا ہے تو یہاں گزارے لائق رٹ آف گورنمنٹ بھی باقی نہیں رہے گی۔ کشمیر کے حوالے سے اب مذاکرات بھی ایک طرح سے معذرت خواہی ہے اور پانی کا مسئلہ بھی سنجیدگی اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس لئے بھارت کے ساتھ بھی سر اٹھا کر حتمی بات کرنی چاہئے۔ سفارتی حلقوں کو بھی مہمیز کرنا چاہئے کہ آخر کیوں اقوام متحدہ اپنی قراردادوں پر اس کے باوجود عملدرآمد نہیں کرا سکا کہ نہرو نے ان پر دستخط کر دئیے۔ بعد کے انکار کی تو کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ امریکہ سے اب کسی خیر کی توقع رکھنا دیوانے کا خواب ہے۔