آغا شورش کاشمےری صرف اےک بلند پاےہ صحافی، شاعر اور شعلہ نوا خطےب ہی نہےں تھے بلکہ وہ تحرےک آزادی کے اےسے مجاہد تھے کہ جنہوں نے جہاد آزادی مےں حصہ لےنے کی قےمت طوےل مدت تک قےد و بند اور اپنے جسم کے اُوپر انگرےز دور مےں ظلم و استبداد کا ہر حربہ برداشت کرنے کی صورت مےں ادا کی تھی۔ شورش کاشمےری کا تعلق اس قافلہ حرےت سے تھا کہ آزادی وطن کے لئے جس کے اےثار و قربانی، جرا¿ت، استقامت اور ہمت و استقلال سے تو انکار نہےں کےا جا سکتا لےکن وہ ہندوستان کی تقسےم سے اختلاف رکھتا تھا۔ گوےا تحرےک آزادی مےں بھرپور طور پر شامل ہونے اور آزادی کی خاطر بے پناہ قربانےاں دےنے کے باوجود شورش کاشمےری تحرےک پاکستان کا حصہ نہےں تھے لےکن شورش کاشمےری کی عظمتِ کردار ےہ ہے کہ انہوں نے قےام پاکستان کے بعد دل و جان کی گہرائےوں سے پاکستان اور نظرےہ پاکستان سے محبت کی۔ بطل حرےت آغا شورش کا شمےری کی حب الوطنی اور نظرےہ پاکستان سے سچی وابستگی کے حوالے سے تحرےک پاکستان کے ممتاز کارکن مجےد نظامی سے معتبر گواہی اور کس کی ہو سکتی ہے۔ مجےد نظامی نے ”عجب آزاد مرد تھا“ کے عنوان سے اپنے اےک مضمون مےں لکھا تھا کہ ”آغا صاحب اپنی ذات مےں اےک انجمن تھے۔ جری سےاست دان، شاعر اور ادےب، شعلہ نوا مقرر اور صحافی۔ اس لحاظ سے وہ اےک ادارہ تھے۔ اقبالؒ کے فدائی اور مجاور تھے۔ بانی¿ پاکستان بابائے قوم کو اپنے پےرو مرشد عطااللہ شاہ بخاری ؒ کی ہداےت پر قائداعظمؒ مانتے تھے۔ قوم پرست ماضی کے باوجود وہ کٹر پاکستانی اور نظرےہ پاکستان کے دل سے قائل تھے۔“ مجےد نظامی نے شورش کاشمےری کے لئے کٹر پاکستانی کے الفاظ استعمال کئے ہےں۔ اُن کے الفاظ کی تصدےق 1965ءاور 1971ءکی جنگ مےں ”چٹان“ مےں شائع ہونے والی شورش کاشمےری کی ان شعلہ فشاں نظموں اور تحرےروں سے بھی ہوتی ہے جو قلم سے نہےں بلکہ تلوار کی نوک سے لکھی محسوس ہوتی تھےں۔
شورش کاشمےری تحرےک آزادی کے مجاہد تھے۔ اس لئے قےام پاکستان کے بعد وہ تحرےر و تقرےر کی آزادی کے بھی بہت بڑے علمبردار تھے۔ تحرےر و تقرےر کی آزادی چونکہ جمہورےت سے مشروط ہے اور خود بھی اےک خالص جمہوری تحرےک کے نتےجہ ہی مےں معرض وجود مےں آےا تھا، اس لئے شورش کاشمےری نے ہمےشہ ملک مےں جمہوری اقدار کے فروغ اور تحرےر و تقرےر کی آزادی کی حفاظت کے لئے اپنے قلم کو استعمال کےا۔ حکمرانوں کے آمرانہ عزائم جب سےفٹی اےکٹ، سےکورٹی اےکٹ اور اسی قسم کے دےگر جابرانہ قوانےن کی صورت مےں سامنے آنے لگے تو شورش کاشمےری ان کے خلاف ڈٹ گئے۔ غےر ملکی حاکموں کے خلاف لڑنے والا اور گرفتاری و نظر بندی سے کبھی خوفزدہ نہ ہونے والا شورش کاشمےری پاکستان کے اپنے ہی حکمرانوں کے جمہورےت کش اقدامات کو کےسے برداشت کر سکتا تھا، جب بھی کسی سےاست دان، صحافی سےاسی کارکن ےا ادےب و شاعر کو حکمرانوں نے بغےر مقدمہ چلائے نظربند کےا ےا ہراساں کرنے کے لئے جھوٹے مقدمات مےں گرفتار کےا تو شورش کاشمےری نے اپنے ہفت روزہ ”چٹان“ مےں اس کے خلاف شدےد احتجاج کےا۔ اےک مرتبہ پنجاب کی اےک حکومت نے نوائے وقت کے بانی حمےد نظامی کے خلاف کالے قوانےن کا سہارا لے کر کارروائی کی تو شورش کاشمےری نے درج ذےل الفاظ مےں اپنے غم و غصے کا اظہار کےا تھا ”ہمارا اعتراض اصولی ہے کہ پبلک سےفٹی اےکٹ کا حمےد نظامی پر وار نہاےت اوچھا معلوم ہوتا ہے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ اگر اےک ترازو لی جائے اور اس مےں قوم و ملک سے وفاداری کا جذبہ تولا جائے تو ےقےناً ان لوگوں سے حمےد نظامی کا پلڑا جھکا ہوا نظرآئے گا جنہےں محض زمانے کی رفتار نے حاکمےت کی گدی پر لا بٹھاےا ہے ےہ اقدام لگانے کی اےک افسوس ناک سعی ہے۔“
شورش کاشمےری آزادی تحرےر و تقرےر کے صرف اپنی ذات ےا دوستوں کے ہی طلبگار نہےں تھے بلکہ وہ نظرےاتی اعتبار سے اپنے بدترےن مخالفوں کی آزادی تحرےر و تقرےر کی حفاظت کے لئے ہمےشہ جنگ کے لئے آمادہ رہتے تھے۔ اےک موقع پر جب حکومت نے کمےونسٹوں کے خلاف چڑھائی کی اور انہےں پس دےوار زنداں بھےجنے کا سلسلہ شروع کےا تو اس غےر جمہوری عمل کے خلاف بھی سب سے پہلے احتجاج شورش کاشمےری نے کےا۔ گوےا شورش کاشمےری اصولی طور پر تحرےر و تقرےر کی آزادی کو ہر پاکستانی کا پیدائشی حق سمجھتے تھے اور وہ دل سے اس بات کے قائل تھے کہ ”تم جو کچھ کہتے ہو مجھے اس سے اختلاف ہے لےکن مےں آخری دم تک تمہارے اس حق کی حماےت کروں گا کہ جو کچھ تم کہنا چاہتے ہو وہ تم پوری آزادی سے کہہ سکو۔“ ےہی وجہ ہے کہ شورش کاشمےری نے کمےونسٹ شاعروں اور ادےبوں کی آزادی ضمےر کی جنگ بھی لڑی اور خود ان کی تحرےروں کا مقابلہ اپنے زور قلم سے کےا۔ شورش کاشمےری کی ملک مےں جمہوری قدروں کو مستحکم کرنے اور تحرےر و تقرےر کی آزادی کا حق منوانے کے لئے جدوجہد صرف ان کے زورِ قلم کی جولانےوں تک ہی محدود نہےں تھی بلکہ وہ قےام پاکستان کے بعد بھی اپنی تحرےری جسارتوں اور باغےانہ تقارےر کے باعث کئی مرتبہ گرفتار ہوئے لےکن شورش کاشمےری کی مضطرب اور بے قرار روح نے قلم کی حرمت پر ناروا پابندےوں کو کبھی قبول نہےں کےا۔ زندگی کی آخری سانس تک شورش کاشمےری کی بے خوف صدا آمرےت کے مسلط کردہ سناٹوں مےں گونجتی رہی وہ چراغِ آخرِ شب کی طرح جلتے رہے لےکن جب اس بزم ہستی سے اُٹھے تو اس ےقےن کے ساتھ رخصت ہوئے کہ ع
ہمارے بعد اندھےرا نہےں اُجالا ہے
وہ اپنی ذات مےں بھی ظلم و استبداد کے اندھےروں کے خلاف اےک سحر، اےک حقےقت اور اےک اُجالا تھے۔ حرف صداقت انہےں اپنی جان سے بھی زےادہ عزےز تھا، اس لئے وہ سرِ مقتل بھی صداقت کے امےن رہے۔