جمعة المبارک ‘ 9 ذی الحج 1433ھ 26 اکتوبر2012 ئ


اداکارہ نرگس نے کہا ہے‘ کسی کو قتل نہیں کرایا‘ عالمہ بنوں گی‘ نرگس نے قرآن پاک اٹھا کر پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ مولانا طارق جمیل سے بات کرلی‘ چھ ماہ پہلے سٹیج چھوڑ چکی ہوں‘ فلموں میں بھی کام نہیں کروں گی۔
صبح کی بھولی ”اتنی بھی ”بھولی“ نہیں ہوتی کہ شام کو گھر نہ لوٹے‘ انہوں نے اگرچہ پریس کانفرنس قرآن اٹھا کر کی‘ لیکن اسی طرح کی ایک قرآن بردار پریس کانفرنس کچھ عرصہ پہلے ذوالفقار مرزا نے کی تھی اور ان ہی کی سنت پر چلتے ہوئے الطاف بھائی نے بھی ایک قرآن پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور اس دوران انکی آنکھوں سے برکھا بہار بھی برستی رہی۔ ویسے یہ قرآنی پریس کانفرنس سے بہتر نہیں کہ ایک قرآن کانفرنس ہی کرادی جائے تاکہ بندے اور خدا کا معاملہ دونوں کے درمیان ہی رہے۔ نرگس پر قتل کا کیس دائر ہوا تو اسکے بعد ہی ان پر اسلام ظاہر ہوا اور وہ سرتا پا حجاب میں ڈوب گئی ہیں‘ نرگس نے مولانا طارق جمیل سے بات کرلی ہے‘ مولانا اب ذرا اور بھی نیک ہو جائیں کہ یہ آزمائش ہے اور اس رابطے کا مطلب اگر علم دین کا حصول ہے تو وہ مختلف چینلوں پر عالمہ ¿دین کی حیثیت سے کیمرے کے سامنے آسکتی ہیں۔ ہم پہلے ہی یہ سوچا کرتے تھے کہ نرگس اندر سے نیک ہے‘ اوپر کا ہمیں پتہ نہیں اور یہ ضرور ایک دن صراط مستقیم کی طرف لوٹیں گی۔ انکے جو پرستار اس دنیا میں موجود نہیں‘ وہ عالم ارواح میں یہ شعر پڑھتے ہونگے....
آج ہی جاتا وہ راہ پر غالب
کوئی دن اور بھی جئے ہوتے
٭....٭....٭....٭
دو خبریں ایسی ہیں کہ دونوں ایک دوسرے کا علاج ہیں۔ ایک یہ کہ دنیا بھر میں ڈیڑھ ارب انسان موٹاپے کا شکار ہیں‘ یہ اعلان موٹاپے کے عالمی دن کے موقع پر کیا گیا۔ دوسرے یہ کہ امریکہ میں ایک ایسا خاموش ترین کمرہ تیار کیا گیا ہے کہ دل کی دھڑکن بھی سنائی دیتی ہے۔ اگر ایک موٹا انسان امریکی خاموش کمرے میں بٹھا دیا جائے تو اس کا وزن کم ہونا شروع ہو جائیگا کیونکہ وہاں اسے اتنا پسینہ آئیگا کہ چربی کے گلیشیئر دھیرے دھیرے پگھلیں گے اور یہ عمل بار بار دہرانے سے تو موٹا شخص بانس کی چھڑی بن جائیگا۔ دل کی دھڑکن کا سنائی دینا کوئی اچھا شگون نہیں کیونکہ جب انسان اس پر غور کریگا تو وہ اور بڑھتی جائیگی اور غالب سے یہ فتویٰ لینا ہو گا....
نغمہ ہائے زندگی ہی کو غنیمت جانیئے
بے صدا ہو جائےگا یہ ساز ہستی ایک دن
ویسے امریکہ نے اسلامی دنیا کو تو ایک ایسا کمرہ بنانے کی کوشش شروع کر رکھی ہے کہ اس شہر خموشاں میں دل دھڑکتے ہی نہیں۔ زندگی کا طبلہ کیا خاک بجائیں گے؟ موٹاپا ایک ایسی آندھی ہے کہ جہاں چٹیل زمین ہوتی ہے‘ وہاں ٹیلے کھڑے کر دیتا ہے۔ اسی طرح کسی شاخ گل کی مانند سمارٹ انسان کو موٹاپا لاحق ہو جائے تو اسکے خدوخال حرف غلط کی طرح مٹ جاتے ہیں اور اچھا بھلا حسن کا پیکر ”بیکر“ بن جاتا ہے۔ بعض خاندانوں میں موٹاپے کا موروثی رجحان ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو بھی پیٹ کو 24 گھنٹے میں ایک آملیٹ دینا چاہیے۔ ہمارے ہاں جب کوئی اچانک امیر ہوتا ہے تو اسکی توند کمرے میں پہلے اور وہ بعد میں داخل ہوتا ہے۔ اسے کچھ افراد تو اپنی اہلیت سمجھتے ہیں‘ مگر یہ اہلیت جلد ہی انسان کو نااہل بنا دیتی ہے اس لئے لوگ پیدل چلیں اس میں طرح طرح کے فائدے پوشیدہ ہیں۔
٭....٭....٭....٭
مولانا فضل الرحمان فرماتے ہیں‘ امریکہ اور مغربی طاقتیں پاکستان کو میدان جنگ بنانا چاہتی ہیں۔
یہ بات بالکل ایسے ہے کہ کوئی کہے پاکستان میں غربت پائی جاتی ہے‘ مولانا اتنے بڑے حجم کے سیاست دان ہیں کہ سمارٹ بننے کےلئے چھوٹے چھوٹے بیانات دیتے ہیں‘ چھوٹے چھوٹے سے ہمیں یاد آیا کہ ہم نے اپنے ایک روشن خیال مہربان سے پوچھا کہ آپ روزے کیوں نہیں رکھتے؟ تو انہوں نے کہا روزے تو رکھتا ہوں مگر وہ چھوٹے چھوٹے ہی مر جاتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان پہلے عالم دین ہیں جنہوں نے باقاعدہ سیاست ہی میں نہیں‘ اقتدار میں بھی قدم رکھا اور ثابت کر دیا....ع
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
لیکن یہ چنگیز خان بھی کوئی اتنا تیز خان ہے کہ انکے آئے بھی نہ گیا بلکہ اور مستحکم ہو گیا۔ ہم نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ مولانا سیاسی ویژن رکھتے ہیں‘ اگر ملک بھر کی دینی جماعتوں‘ دیندار لوگوں کو یکجا کرکے چلیں تو انکے پاس قیادت بھی ہو گی‘ عوام بھی ہونگے۔البتہ مولانا نے کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت میں جو کارنامے دکھائے ہیں‘ وہ انکی سیاسی کارکردگی کا جگمگاتاثبوت ہے۔
٭....٭....٭....٭
میاں منظور وٹو فرماتے ہیں‘ اصغر خان کیس میں ہر چیز نکل کر سامنے آگئی‘ شریف برادران سیاست چھوڑ دیں۔
وٹو صاحب قبلہ! اب یہ فتویٰ تو جاری نہ کریں کہ شریف برادران سیاست بھی چھوڑ دیں‘ اس طرح تو پی پی کو بھی سیاست چھوڑنی پڑیگی کہ....
اتنی نہ بڑھا پاکی¿ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ‘ ذرا بند قبا دیکھ
یہ جو ایوان صدر میں سیاست خانہ ہنوز کھلا ہے تو یہ بھی سپریم کورٹ کی حکم عدولی ہے اور قابل گرفت بھی‘ اس لئے اب ایوان صدر میں جو سرتا پا پیپلز پارٹی بیٹھی ہے‘ وہ بھی تو سیاست ترک کر دے۔ باقی میاں صاحبان سیاست ضرور چھوڑ دینگے‘ جب کیس آگے چلے گا اور الزام ثابت ہو گا۔ یہ مفروضہ ہی غلط ہے کہ کوئی سیاست چھوڑ ے کیونکہ ہمارے اکثر سیاست دانوں نے قید کاٹ کر پھر سے سیاست شروع کی بلکہ اقتدار میں بھی آئے۔ اگر انسان غلط کام بھی ذرا سلیقے سے کرے تو لوگ جھانسے میں آجاتے ہیں مگر یہ حکمت ترک کرکے لاہور‘ فتح کرنے اور جاتی عمرہ کے مکینوں کو اس سے نکال باہر کرنے کا ڈنکہ بجانا‘ اچھا نہیں‘ کہیں مسلم لیگ نون اپنا ڈھول نہ بجا دے۔ لاہور میں آمد اور ایک ”کامیاب ترین لاکھوں“ کا جلسہ کرنے پر وٹو صاحب کو ودھائی‘ چلو وہ یہ تو جا کر ایوان صدر میں صفائی پیش کر سکتے ہیں کہ میرا حلقہ‘ کوئی ہلکا نہیں‘ لاکھوں پر بھاری ہے۔ وہ ایوان صدر میں کوئی کارنامہ کرکے جائیں‘ ورنہ انہیں جھاڑ سن کر کہنا پڑیگا....
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تم ہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے

ای پیپر دی نیشن