ہر جگہ شارٹ فال


آئی ایم ایف سے ڈیل نے ہمارے بجٹ ہلا کر رکھ دیئے ہیں جون 2013ء میں بجٹ پیش کرنے کی رسم ادا کی گئی تھی ترقیاتی کام شروع ہونے سے پہلے ہی ترقیاتی بجٹ میں 321 ارب کی کٹوتی کردی گئی ٹیکسوں سے آمدنی کے ہدف کو بھی کم کرکے 2345 ارب روپے کردیا گیا آئی ایم ایف کے 6.7 ارب ڈالر کے قرضوں کی پہلی قسط 54 کروڑ ڈالرتھی جس کے بعد روپے کو غش آگیا 2008ء میں بھی ڈالر کے انجکشن سے روپیہ بے ہوش ہوگیا تھا روپے کی قدر گرانے میں کس کا ہاتھ ہوتا ہے؟ دہشت گردی کی جنگ سے پاکستانی معیشت کو 102 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے حکومت کے پاس ہر چیز کا شارٹ فال ہی دکھائی دیتا ہے زرمبادلہ کا شارٹ فال بجلی اور گیس کا شارٹ فال ایماندار افسروں کا شارٹ فال کس کس شارٹ فال کو گنوایا جائے جنوری 2014ء تک گیس کا شارٹ فال 1400 ملین کیوبک فٹ تک پہنچ جائے گا۔ صارفین کے چولہے گیس کو ترسیں گے۔ ملک بھر میں لوڈشیڈنگ کا سلسلہ بتدریج زور پکڑ رہا ہے یکم اکتوبر سے بجلی کی قیمتیں 40 سے 172 فیصد تک بڑھ چکی ہیں اسکے باوجود نیپرا نے 23اکتوبر کو 0.32 فی یونٹ کا مزید اضافہ کردیا IPPs کو 480 ارب روپے ادا نہیں ہوئے تھے لوڈشیڈنگ کا عذاب تب بھی ویسا ہی تھا جیسا اب ہے۔ IPPs سے 1994ء اور 2002ء میں کئے گئے کمیشن نے 68 قومی اداروں کی لسٹ تیارکرلی ہے یہ سفید ہاتھی سالانہ 500 ارب روپے کھا کر بھی راضی نہیں ہو رہے۔ امریکہ کی طرح ڈو مور ڈومور کی رٹ لگائے رکھتے ہیں۔ آئندہ ڈیڑھ سال میں 31 اداروں کو انکے نئے سرپرست مل جائیں گے حکومت نے نئے سرپرستوں کی لسٹ بھی تیار کرلی ہے یہ کم و بیش حکومت وقت کے مقربین ہیں۔
دنیا میں ہمیں ہی یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہماری آمدنی چھ سال سے ایک سٹیشن پر ٹھہری ہوئی ہے آئی ایم ایف کے انجکشن کے بعد تو ہماری حالت زیادہ غیر ہوگئی ہے اکنامکس کی باتیں عوام کی سمجھ میں نہیں آتیں ان غریبوں کا تو صبح صبح چالان ہوجائے تو وہ سارا دن منہ لٹکائے پھرتے ہیں۔ آئی ایم ایف ہمارے عدم توازن کے پیچھے پڑا ہے ہمارے ہاں تو قدم قدم پر عدم توازن ہے جس طرح دہشت گردی اور ڈرون حملے ہم پر سوار ہیں اسی طرح آئی ایم ایف کے مطالبات ہم پر سوار ہیں۔ ابھی تو شریف حکومت کے پانچ ماہ بھی پورے نہیں ہوئے عوام کا سر مہنگائی سے چکرانے لگا ہے حکومت کو ایک ہی دھن سوار ہے کہ ٹیکس کا جال جگہ جگہ پھیل جائے اور 65 اداروں کی نجکاری سے حکومت دوست سرمایہ دار نہال ہو جائیں۔ نئے سے نئے میاں منشا جنم لیں اور سرمایہ کاری نظام کی جڑیں گہری ہوتی چلی جائیں۔ آئی ایم ایف کا ہم سے مطالبہ ہے کہ حکومت کا رول صرف عوام کی جان و مال کی حفاظت تک محدود ہے باقی سب کچھ سرمایہ داروں کی جھولی میں ڈال دیا جائے۔ آج بھی عوام کے دو حکمران ہیں ایک وہ جو جن کے چہرے ٹی وی سکرینوں پر دکھائی دیتے ہیں دوسرے وہ جو پردے کے پیچھے رہ کر اپنی ڈگڈگی سے صارفین کو نچاتے ہیں۔ عوام کے آقا تو زمیندار اور کارخانہ دار ہیں گندم اور گنے کی قیمتیں زمیندار جبکہ آٹے اور چینی کی قیمتوں کا تعین فلور اور شوگر ملز مالکان کرتے ہیں۔ نیپرا اور اوگرا بھی حکمران ہیں جن کے حکم سے تیل اور بجلی کی قیمتوں کا تعین ہوتا ہے۔ صارفین کی کیا مجال جو اپنے آقائوں کے سامنے دم مار سکیں یہی حال حکومت کا امریکہ اور آئی ایم ایف کے سامنے ہے جنوری 2012ء سے اگست 2013ء کے عرصے میں شمالی وزیرستان میں 45 ڈرون حملے کئے گئے ہم امریکہ کا کیا بگاڑ سکے ہم تو ریمنڈ ڈیوس قاتل کو تارا مسیح دکھانا تو درکنار اسکے کان بھی نہ پکڑوا سکے ہم سیاسی اور اقتصادی طور پر کمز ور ہیں تو ہمارا روپیہ بھی ڈالر کے سامنے کان پکڑتا دکھائی دیتا ہے۔ امریکہ سے 66 سالہ دوستی نے ہمیں کیا دیا؟ امریکہ تو ہمارے جیسے مزارعوں سے یہ پوچھتا ہے کہ ہم امریکہ کے لئے کیا کرسکتے ہیں۔ عوام دوہری آگ میں جل رہے ہیں ایک ڈرون کی آگ، دوسری انتہا پسندوں کی نہ بجھنے والی آگ۔ واشنگٹن میں نوازشریف اوباما ملاقات کے باوجود پاکستان کو سکھ کا سانس نصیب نہیں ہوگا۔ ریمنڈ ڈیوس کے بعد امریکہ شکیل آفریدی کو مانگ رہا ہے، عافیہ صدیقی کا کہیں ذکر نہیں ہوا، ایران پاکستان گیس پائپ لائن پر بھی مٹی ڈالنے کا کہا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف کو ہم نے کئی سو ملین ڈالر کی قسطیں واپس کرنی ہیں۔
امریکہ طالبان سے خود بات کرنا چاہتا ہے وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ پاکستان اس بات چیت کو Facilikate کرلے ڈرون ایک چڑیل کا نام ہے جو ہمیں چمٹی رہے گی۔ کسی دم درود سے نہیں جائے گی۔ 2004ء سے 2013ء تک 400 ڈرون حملوں میں 3500 لوگ شہید ہوئے اسی عرصے میں دہشت گردوں کے ہاتھوں 17845 لوگ شہید ہوئے اتنے سارے پاکستانیوں کی شہادت یا قتل کے خلاف کس کے خلاف ایف آئی آر درج ہونی چاہئے۔ ڈرون حملوں نے 175 بچے شہید کئے کیا یہ دہشت گرد تھے، 535 عام شہری شہید ہوئے 49 ہائی پروفائل لوگ شہید ہوئے، کیا یہ دہشت گرد تھے۔ کیا کسی اور آزاد اور خود مختار ملک کے ساتھ ایسے سانحات رونما ہو رہے ہیں۔ ایک ارب ساٹھ کروڑ ڈالر کی امداد کے بدلے ہم اپنے ہونٹ سی لیں۔ مسئلہ کشمیر کے حل میں امریکہ نے کبھی کوئی کردار ادا نہیں کیا یہ بات لاریب نہیں کہ امریکہ بھارت کا جگری یار ہے۔ وزیراعظم نوازشریف امریکی ڈرون حملوں کے خاتمے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں ان کا زور لفظوں سے زیادہ نہیں ہوتا۔ دورۂ امریکہ کے بعد بھی کچھ نہیں بدلے گا۔

ای پیپر دی نیشن