کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ ضمیر فروشی جب حد سے بڑھ جائے تو یہ اخلاقی انحطاط کیساتھ قوموں کا مستقبل بھی دائو پر لگ جاتا ہے۔ ہمارے ارد گرد پھیلے گھنائونے جرائم، کرپشن اور ملاوٹ کے عفریت نے انسانیت کو سہما دیا ہے اور آج یہ صورتحال ہے کہ ہم میں نہ جدوجہد کا عنصر ہے اور نہ ہی نظم و ضبط ایمان کا حال تو خدا بہتر جانتا ہے لیکن کہیں مردار جانوروں کے گوشت کی فروخت، ان جانوروں کی انتڑیوں سے گھی نکال کر سرعام فروخت، ضروریات زندگی میں ان اشیاء کی ملاوٹ جو یقینا مضر صحت ہو سکتی ہیں، اس بات کی دلیل ہیں کہ ہمارا ضمیر سے رشتہ نجانے کب کا ختم ہو چکا ہے اور ہم اپنی اساس سے بہت دور جا چکے ہیں۔ ہمارا آج کا المیہ ملاوٹ اور غذائی بحران ہے۔ ماہرین کے اندازے کیمطابق پاکستان میں غذائی قلت 58فیصد ہے جبکہ پوری دنیا میں غذائی بحران 81 فیصد ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ پاکستانی عوام کو غذائی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے اخراجات کا تخمینہ 37 فیصد تھا لیکن آج یہ ہدف 73 فیصد ہو چکا ہے۔ ملاوٹ کی شرح میں بھی اسی حساب سے اضافہ ہوا ہے۔ ایک صحت مند دماغ ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھتا ہے لیکن جب یہی عوام معیاری اور بہتر ضروریات زندگی کیلئے ترسنے لگیں تو معاشرہ متوازن نہیں رہ سکتا۔ آج ہم اکیسویں صدی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے جذبہ حب الوطنی اور قومی مفاد کو ناگزیر سمجھتے ہیں لیکن یہ محرکات کیسے پیدا ہوں قوم کی جڑوں میں خود غرضی کا وائرس اس حد تک پھیل چکا ہے کہ اسکا تدارک ممکن ہی نظرنہیں آتا۔ ہمارے ہاں چھیاسٹھ سالوں سے جو بھی حکومتی پالیسیاں بنتی رہی ہیں انہوں نے عوام پر یہ اثرات مرتب کئے ہیں کہ انہیں آٹا، گھی، دال کی قیمتوں کے سواکچھ یاد نہیں رہا ہے۔ غذائی بحران تقریباً ہر دور میں رہا، لیکن ہمیں پاکستان کی تاریخ میں ایسی کوئی پالیسی یا حکمت عملی نظر نہیں آئی جس نے غریب کی قسمت کا پانسہ پلٹ دیا ہو۔ کیا غربت تنگ دستی اور فاقہ کشی میں دھنسے عوام کیلئے کوئی دن امن اور سکون کا پیغام لائے گا۔ اسکا جواب حکمرانوں کے پاس نہیں ہے کیونکہ یہ سوال معیشت اور سیاست کے ان پہلوئوں سے برآمد ہوتے ہیں جن کی زوال پذیری کا براہ راست عوام پر اثر پڑتا ہے۔ ہمیں ا س وقت ان عناصر کی ضرورت ہے جو خودغرضی کے وائرس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے، صاحب اقتدار قوم کا درد رکھتے ہیں۔ قانون سب کیلئے برابر ہے، اس معاشرے کی ترقی کی وجہ یہ ہے کہ وہ معاشرہ خود غرضی اور ملاوٹ سے کوسوں دور ہے۔ لوٹ مار کا بازار گرم نہیں ہے۔ حکمرانوں کی دولت باہر اکائونٹس میں جمع نہیں ہوتی بلکہ وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں ملک کیلئے کرتے ہیں لیکن جب اس سے برعکس صورتحال پیدا ہو جائے تو اپنے ہی ملک میں عوام عدم تحفظ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ایک ادیب چائنہ گئے وہاں وہ ایک ایسے کارخانے میں گئے جہاں ریشم تیار ہوتا تھا انہوں نے دیکھا کہ وہاں ایک چینی خاتون سوتی کپڑوں میں ملبوس بیٹھی ہوئی تھی۔ انہوں نے سوال کیا کہ ’’آپ کے ارد گرد اتنا ریشم ہے اسکے باوجود آپ نے سادہ سے سوتی کپڑے زیب تن کر رکھے ہیں۔‘‘ اس نے جواب دیا کہ ’’ جب تک میرا پورا ملک ریشم پہننے کے قابل نہیں ہو جاتا میں یہی لباس پہنوں گی‘‘ یہ جذبہ حب الوطنی کی ایک مثال ہے اور یہ جذبہ مثبت تبدیلی سے آتا ہے۔ عوام روز اول سے ہی تبدیلی کا نعرہ سنتے چلے آ رہے ہیںلیکن جب نظام تعطل کا شکار ہو جائے تو تبدیلی کا خواب پورا ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں میں فیصلے کا حق صرف چند افراد کو ہوتا ہے جو جماعت کی قیادت کرتے ہیں۔ بالعموم ہر سیاسی پارٹی ایک منشور رکھتی ہے جس پر عمل نہیں کیا جاتا۔ تقریباً تمام پارٹیوں کے منشور میں چند باتیں مشترک ہوتی ہیں۔ غذائی بحران پر قابو، جہالت کا خاتمہ، عورتوں کے مساوی حقوق، بیروزگاری کا خاتمہ، فرسودہ قوانین کا خاتمہ اور عوام کے بنیادی حقوق، لیکن جب ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا تو فرسٹریشن بڑھتا ہے۔ یہ پارٹیاں الیکشن کے دنوں میں تو محرک نظر آتی ہیں لیکن الیکشن کے بعد تمام وعدے وعید دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں بلکہ مہنگائی، غربت، افلاس اور بیروزگاری میں تیزی سے اضافہ ہو جاتا ہے اور عوام کو جمہوری فضا میں ہی دم گھٹتا ہوا محسوس ہونے لگتا ہے کیونکہ ہم سے وہ مقصد چھن گیا ہے جس کے تحت ہم نے یہ وطن حاصل کیا تھا۔ حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں کہ ’’کامیابی کا حصول اتنا اہم نہیں ہوتا جتنا کہ مقصد کا انتخاب‘‘۔