بعض لوگ اس طرح کے ”وعظ“ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اب ہمیں مقبوضہ کشمیر کو بھول جانا چاہئیے کیونکہ کشمیر کے مسئلہ پر ہماری انڈیا کے ساتھ چار جنگیں ہو چکی ہیں اور ہم ہر دفعہ کشمیر کی آزادی کے مسئلہ کو جنگوں کے ذریعے حل کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ میں کالم کے شروع میں ہی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میرا تعلق کشمیر کی آزادی کے معاملہ کے حوالے سے مجید نظامی سکول آف تھاٹ سے تعلق ہے۔ میں یہاں مجید نظامی کے School of thought کی وضاحت کر دوں کہ مجید نظامی کی آزادی کشمیر کے حوالے سے جو نقطہ نظر تھا میں اس کو پوری پاکستانی قوم کا نقطہ نظر سمجھتا ہوں۔ مقبوضہ کشمیر میں حریت کے محاذ پر جتنی بھی جماعتیں اور مجاہدین سرگرم عمل ہیں وہ سب بھی یہ تسلیم کرتے تھے کہ پاکستان میں اگر انکے دلوں اور جذبات و احساسات کی اگر کوئی ترجمانی کرتا تھا تو وہ صرف مجید نظامی تھے۔ مجید نظامی قافلہ صحافت کے ہی مایہ ناز جرنیل نہیں تھے وہ کشمیر کے محاذ آزادی پر بھی پوری قوم کی درست سمت میں رہنمائی کا ہمیشہ دو ٹوک انداز میں فریضہ ادا کرتے رہے۔ مجید نظامی ہمیشہ ہمیں یہ بتاتے رہے کہ صرف اور صرف جہاد کی راہ پر چل کر ہی کشمیر کو آزاد کرایا جا سکتا ہے۔ مجید نظامی پاکستان کی صرف نظریاتی سرحدوں کی بات نہیں کیا کرتے تھے بلکہ وہ پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کیلئے قوم کو مسلسل بیدار کرتے اور قران کریم کے حکم کے مطابق اپنے گھوڑے تیار رکھنے کا درس بھی دیا کرتے تھے۔ مجید نظامی زور دے کر یہ بات بھی کیا کرتے تھے کہ ہمیں اپنی صفوں میں موجود ان بھارتی شردھالوﺅں پر بھی کڑی نظر رکھنا ہوگی جو مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈال کر ہمارے ازلی دشمن بھارت کیساتھ دوستی اور تجارت کا راگ الاپ رہے ہیں۔ مجید نظامی امریکہ، انڈیا اور اسرائیل کو شیطانی اتحاد ثلاثہ کا نام دیا کرتے تھے۔ اور فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے دشمنوں کی نظر میں دراصل ہمارے ایٹمی اثاثوں پر ہیں۔ انڈیا سمیت تمام اسلام دشمن طاقتیں پاکستان کے وجود اور سلامتی کو اس لئے برداشت نہیں کر رہیں کیوں دنیا بھر میں پاکستان واحد اسلامی ایٹمی طاقت ہے۔جناب مجید نظامی جب بھی کشمیر کے مسئلہ پر تقریر کرتے تھے تو وہ قائد اعظم کے اس فرمان کا حوالہ ضرور دیتے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے قائد اعظم کی دور رس نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ مستقبل کے پاکستان کی اقتصادیات کا انحصار کشمیر سے پاکستان کی طرف بہنے والے دریاﺅں پر ہے۔ آج عملی طور پر بھی قائد اعظم کا یہ قول درست ثابت ہو گیا ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ جب تک ہماری یہ شہ رگ انڈیا کے قبضہ میں ہے وہ مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کی طرف بہنے والے دریاﺅں پر ڈیم بناتا رہے گا اور ہمارے حصے کا پانی روک کر پاکستان کی درجنوں زمینوں کو بنجر بنانے کی عملی سازشیں کرتا رہے گا۔ مجید نظامی نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی اکثر تقریبات میں پاکستان کے خلاف بھارت کی آبی جارحیت کا ذکر کیا کرتے تھے اور وہ پاکستان کے حکمرانوں سے بھی یہ توقع رکھتے تھے کہ انڈیا کو دو ٹوک انداز میں یہ وارننگ دی جائے کہ اگر وہ ہمارے دریاﺅں پر ڈیم بنانے سے باز نہ آیا تو یہ ڈیم ہم میزائلوں سے اڑا دینگے۔ مجید نظامی ان لوگوں پر بھی سخت تنقید کیا کرتے تھے جو پاکستانی قوم کو بزدل بنانے کیلئے اس طرح کے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ اب اگر کسی غلطی سے بھی پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ شروع ہو گئی تو یہ ایٹمی جنگ میں تبدیل ہو کر سب کچھ تباہ و برباد کر کے رکھ دیگی۔ مجید نظامی کا اس سلسلہ میں واضح موقف تھا کہ ہمیں بطور مسلمان موت سے ہرگز خوف زدہ نہیں ہونا چاہئیے اور جو مسئلہ پاکستان کی بقاءاور سلامتی ہے اس کیلئے ہمیں ہروقت ہر طرح کی قربانی دینے کیلئے تیار رہنا چاہئیے۔
مجید نظامی بزدل، کم ہمت اور مصلحت اندیش قسم کے لوگوں کو دلیل اور دانش سے قائل کرنے کیلئے اکثر یہ بھی فرمایا کرتے کہ پاکستان اب 1971ءوالا پاکستان نہیں ہے۔ اب ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں اور پاکستان کے گھوڑے (ایٹمی ہتھیار) انڈیا کے ”کھوتوں“ سے کئی درجہ بہتر ہیں اس لئے کسی کو ڈرنے اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، جنگ کی صورت میں آخری فتح پاکستان کی ہوگی۔
ایک ریٹائرڈ بریگیڈئیر نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ ”جو لوگ یہ نعرے بلند کرتے ہیں کہ ہم کشمیر کو آزاد کروائیں گے وہ زمینی حقائق سے بے خبر ہیں۔ کیوں کہ ہم چار دفعہ کشمیر کی آزادی کیلئے جنگیں لڑ کے اپنے مقصد میں ناکام رہے ہیں“۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ریٹائرڈ بریگیڈئیر صاحب کی یہ مایوس کن رائے ہماری بہادر افواج کی اجتماعی سوچ سے یکسر متصادم ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب ہمارے عظیم لیڈر محمد علی جناح کا یہ فرمان عملی طور پر بھی آج سچ ثابت ہو گیا ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور جب تک ہماری شہ رگ انڈیا کے قبضے میں ہے وہ پاکستان کو ریگستان بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑے گا اور پاکستان کے عوام قحط سالی کے نتیجہ میں بھوکے اورپیاسے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کا شکار ہو جائیں گے تو پھر ہم مجید نظامی کی اس رائے پر ہی کیوں عمل نہ کر لیں کہ ہم لڑتے لڑتے مر جائیں یا دشمن سے اپنی شہ رگ کو آزاد کروا کے پاکستان کو ”بنجرستان“ ہونے سے بچا لیں مجھے تو ایک لمحے کیلئے بھی مجید نظامی کے بتائے ہوئے لائحہ عمل پر شک نہیں ہو سکتا۔ مجید نظامی نے سوفیصد درست کہا تھا کہ یہ نکتہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئیے کہ کشمیر کو صرف بزور شمشیر ہی آزاد کروایا جا سکتا ہے اور جہاں کے علاوہ دوسری کوئی راہ نہیں جس سے کشمیر کی آزادی ممکن ہو۔ مجید نظامی نے جنرل راحیل شریف کی ایک تقریر پر بھی بڑی خوشی کا اظہار کیا تھا جس تقریر میں فوج کے سربراہ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ مجید نظامی یہ بھی فرمایا کرتے تھے۔ کہ جب مذہبی، تاریخی اور جغرافیائی ہر اعتبار سے کشمیر پاکستان کا حصہ ہے اور مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمان بھارتی فوج کے قتل و غارت گری کے نہ ختم ہونیوالے ظلم کا مسلسل شکار ہوں تو ایسے حالات میں اگر ہم اپنے مظلوم اور مجبور کشمیری بھائیوں کی امداد نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ بھی ہمیں معاف نہیں کریگا اور تاریخ میں بھی ہمیں اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیا جائیگا۔ مجید نظامی کی یہ پیشن گوئی بھی سچ ثابت ہوگئی ہے کہ انڈیا کا نیا وزیراعظم مودی پاکستان کیلئے موذی ثابت ہو گا اور اب تک جتنے بھی بھارتی وزیر اعظم ہوگزرے ہیں مودی پاکستان کے حق میں سب سے زیادہ خطرناک ہے لیکن مودی کا دماغ درست کرنے کیلئے بھی ہمیں مجید نظامی ہی کے فارمولے پر عمل کرنا ہو گا۔ انڈیا کے جبر و استبداد کا راستہ روکنے کےلئے جہاں ہی وہ واحد موثر ہتھیار ہے جسے ہمیں مجبوراً استعمال کرنا پڑے گا۔ میں مجید نظامی جیسا بہادر نہیں ورنہ میں بھی یہ کہتا کہ مجھے ایٹم بم سے باندھ کر بھارت پر پھینک دیا جائے۔
کشمیر کی آزادی کا مسئلہ
Oct 26, 2014