جب THE LOST CITY OF GOLD کی تلاش میں یورپی کھوجی اور متلاشی امریکہ پہنچے تو انہوں نے وہاں کی مقامی آبادی کو جان لیوا بیماریوں مثلاً ملیریا، پیچیش، چیچک، انفلواینز، خناق، خسرہ اور تیت ذرد یعنی(Yellow Ferver) میں اپنی سائنسی برتری کے ذریعے مبتلا کر دیا کیونکہ وہاں کے مقامی افراد میں غربت اور افلاس کی وجہ سے قوت مدافعت بہت ہی کم تھی چنانچہ اُنکی پوری پوری نسلیں دنیا سے ناپید ہو گئیں۔ زمبیا میں تانبہ، سری لون میں ہیرے ، سوڈان اور انگولا مےں تیل،کانگو میں سونے کے خطیر مقدار میں ذخائر موجود ہیں مگر وہاں کے بدقسمت باسی غربت اور افلاس کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اسی طرح دنیا کی دوسرے خطوں میں بھی افراد کسمپُرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ مثلاً ہمارے صوبے بلوچستان سے گیس، سونا اور تانبا ملائیشیا سے لکڑی، عراق اور ایران سے تیل اور افغانستان سے سنگ مرمر حاصل کیا جاتا ہے جبکہ ان ممالک کے عوام پسماندگی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور اُنکا استحصال کےا جا رہا ہے۔ افریقی ممالک سے معدنیاتی دولت کو لوٹنے کے بعد اب متعدد غیر ملکی کمپینوں نے دنیا کے دوسرے علاقوں بشمول پاکستا ن کی طرف رُخ کیا ہے اور وہ اس علاقے کے ممالک کے بدعنوان حکمرانوں کے ساتھ مل کر مشکوک لین دین میں ملوث ہیں۔ہمارے صوبہ بلوچستان میں پائے جانے ناگفتہ بہ حالات کسی طرح بھی کسی غریب افریقی ملک سے مختلف نہیں ہیں۔ مثلاً 50 کی دہائی سے اس صوبے سے قدرتی گیس نکالی اور بڑے پیمانے پر استعمال کی جا رہی ہے جبکہ اس سے حاصل ہونیوالی دولت کا عش و عشر بھی وہاں کے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ نہیں کیا جا رہا۔ نیز 1990ءکے بعد اس صوبے کے ریکوڈک اور چاغی کے علاقے میں سونے اور تابنے کے وسیع ذخائر کی دریافت کے بعد متعدد غیر ملکی کمپنیوں نے اس طرف کا رُخ کیا ہُوا ہے نیز سینڈک میں بھی اربوں روپے کے سونے اور تانبے کے ذخائز موجود ہیں اور ان دونوں جگہوں سے یہ معدنیات نکالی جا رہی ہیں اور پورے معاملے میں شفافیت کا مکمل فقدان پایا جاتا ہے۔ ایک رپورٹ کیمطابق 2004 سے اب تک 3 ارب ڈالر کی معدنیات نکالی جا چکی ہیں۔ 2012ءمیں پی پی پی حکومت نے لاکھوں ڈالر مالیت کی معدنیات کا پانچ سال کا ٹھیکہ اےک بین الاقوامی ادارے کو دے دیا اور یہ پورا معاملہ 18ویں ترمیم سے متصادم ہے اور مصدقہ اطلاع کیمطابق اس سلسلے میں سیاستدانوں اور اعلیٰ افسران نے وسیع پیمانے پر کمیشن وصول کیا۔ سینڈک کے علاقے میں بلوچ عوام کا داخلہ مکمل طور پر ممنوع ہے اور کان کنی کے علاقے کے ارد گرد سکیورٹی اور نجی ملیشیا کا سخت پہرہ ہے۔ بلوچستان کے قوم پرستوں کی بڑی شکایت یہ ہے کہ وفاقی حکومت اُنکے صوبے کی معدنیاتی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہے اور اس پورے معاملے میں شفافیت کا فقدان ہے۔ نیز معدنیات سے حاصل شدہ آمدنی میں سے بلوچ عوام کی فلاح بہبود اور خوشحالی کیلئے قطعی کچھ نہیں کیا جا رہا اور یہ ایک مسلمہ حقیقت بھی ہے۔ نیز حکومت انتہا پسندوں کی امداد کر رہی ہے اور بلوچستان کے علاقے کو ایک سوچی سمجھی سازش کے ذریعے ترقی اور خوشحالی سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ نیز حکومت چاغی اور مکران کے علاقے میں ڈرگ مافیا کی امداد میں مصروف ہے۔حال ہی میں وفاقی حکومت نے بلوچ عوام کی مشکلات کو دور کرنے کی بجائے چاغی کے علاقے میں صوبہ پنجاب سے کثیر تعداد میں تبلیغی افراد بھیجے ہیں جو کہ چاغی کے ضلعی ہیڈکوارٹر دالبندین میں جہاد کا پرچار کر رہے ہےں۔ دالبندین جہادیوں کا گڑھ بن چکا ہے جہاں لشکر طیبہ، جماعت الدعوة، جیش محمد اور حرکت المومنین کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ جہاد سے مطلق تحریری مواد اور سی ڈی نوجوانوں میں مفت تقسیم کی جا رہی ہیں نیز جہاد کے بارے میں مساجد میں باقاعدہ محافل کا اہتمام کیا جاتا ہے اور تبلیغی مواد اشتہارات کے ذریعے لوگوں تک پہنچایا جاتا ہے۔پاکستان سے گہرے دوستانہ تعلقات کے حوالے سے چین کو یہ یقین ہے کہ وہ بلوچستان میں موجود دنیا کے تانبے اور سونے کے سب سے بڑے ذخیرے کا مالک بن جائے گا اور اس طرح سینڈک میں پائے جانیوالے 386 ملین گرام سونے اور 10بلین کے جی تانبے کے ذخائر ایک طویل عرصے تک بلو چ عوام کیلئے سوہان روح بنے رہیں گے۔ آزادی سے اب تک بلوچ عوام انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ چاغی ہی کو لے لیں یہ ملک کا سب سے زیادہ پسماندہ ضلع ہے۔ جہاں صرف 5% لوگوں کو بجلی کی سہولت اور صرف 6% کو پینے کا پانی دستیاب ہے۔ اس ضلع میں کوئی کالج ےا دستکاری کا مرکز موجود نہیں۔ حکومتی انتظام کے تحت چلنے والے سکولوں کو ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت تباہ کیا جا رہا ہے تاکہ مذہبی تعلیم دینے والے ادارے انکی جگہ لے سکیں اور اُن اداروں کو قائم کرنے اور چلانے کیلئے منشیات سے حاصل ہونیوالی رقم استعمال کی جا رہی ہے۔ مزید برآں وہاں گورنمنٹ کا ہسپتال تو ہے مگر اُس میں علاج معالجے کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں ہے، اس میں صرف دو بستر ہےں اور ایکسرے ، لیبارٹری اور ایمبولینس کی سہولیات موجود نہیں۔ با الفاظ دیگر ہمارا معدنیاتی دولت سے مالا مال صوبہ آزادی کے 67 سال بعد بھی تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہے اور وہاں کے باسی منشیات کی سمگلنگ، انتہا پسندی، جہالت اور دیگر لاتعداد مسائل کا شکار ہیں جبکہ ہمارے حکمران طبقے کو دولت جمع کرنے، غیر ممالک میں اپنے کاروبار اور اثاثے بنانے سے فرصت نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان میں موجود معدنیاتی نعمت کو مکمل شفافیت کیساتھ استعمال میں لایا جائے اور اس کا بڑا حصہ بلوچ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے اور ان وسائل کے استعمال میں بلوچ عوام کو ہر سطح پر بااختیار بنایا اور شامل کیا جائے۔
”ہائے بلوچستان“
Oct 26, 2014