بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے حصول پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ قرار دیا۔ اور جمہوریت اور نظام کے سوال کے جواب میں فرمایا ” ہمارا نظام ہماری جمہوریت چودہ سو سال پہلے نبی اکرم وضع فرما گئے ہیں“ یہی وہ ازم تھا جو پاکستان ازم تھا لیکن اس پاک سر زمین کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کی بجائے تماش بین طالع آزما سیاستدانوں نے اپنی اپنی سیاسی دوکانداری چمکانے کی تجربہ گاہ بنا دیا۔
زندگی کے شعبہ میں ملازمت ہو یا کوئی اور تجربہ کار میچور افراد کو تعینات کیا جاتا ہے لیکن ہمارے کوچہ سیاست کا باوا آدم نرالا ہے۔ ان ٹرینڈ میچور غیر سنجیدہ افراد کو سیاستدان کا روپ دیکر لیڈر شپ سونپ دی جاتی ہے اور سیاست سیکھائی جاتی ہے۔ جبکہ پس پردہ داخلی وخارجی قوتیں زمام حکومت ہی نا اہل ہاتھوں میں تھمانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تا کہ وہ ایک اچھا کٹھی پتلی حکمران کا کردار نبھا کر ان کے قومی و عالمی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
آجکل یہ قوتیں اسقدر مضبوط ہو کر ایسے ہی اناڑی سیاست کے کھلاڑیوں کومیدان میں اتار رہی ہیں۔ ہمیشہ کی طرح ٹسٹ ٹیوب سیاستدان ان کے پسندیدہ رہے نہیں جنکی تازہ مثال دھرنا برادران اور ابھرتا ہوا سیاسی ہیرو بلاول جو کہ بھٹو بھی ہے اور زرداری بھی گویا دونوں لیڈران کی خوبیاں خامیاں لئے قوم پر سیاسی تربیت کا آغاز ہو چکا ہے۔ موصوف نے آتے ہی اپنے عزائم کا اظہار کر دیا ہے کہ وہ صرف دو ازم تسلیم کرتے ہیں بھٹو ازم اور ضیاءازم ان کے اسپیچ رائٹر نے جان بوجھ کر یہ طفلانہ بیان دلایا ہے کہ واقعی ان کی اپنی تقریر لگے یا پیپلز پارٹی نے بھی شاید ماضی سے سوائے سیاسی داﺅ پیچ کے اور کچھ نہیں سیکھا۔
یوں تو یہاں پر سیاسی گرو اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راج کے طور پر اپنے اپنے ازم پیش کر رہا ہے کوئی دہشت گردی اور چھینا چھپٹی سے حکومت حاصل کرنے کے ازم سے امن و انصاف نچوڑ رہا ہے تو کوئی گاندھی کو بھی اپنا آئیڈیل قرار دیتا ہے اور علامہ اقبال اور قائد اعظم کو بھی اپنا ہیرو قرار دیتا ہے ایک نیا ازم جھوٹ الزام تراشی اور رنگ بازی کا بدتمیزی اور بے حیائی کا نوجوانوں میں سمویا جا رہا ہے۔
ملک میں بے یقینی بے اعتمادی اور بد امنی پھیلا کر ترقی کی نئی راہیں کھولی جا رہی ہیں اعلانیہ غیر جمہوری طریقے سے حکومت چھیننے کے اعلان کر کے جمہوریت کی خدمت کی جا رہی ہے۔
سو جناب! ازل سے ابد تک دو ہی ازم موجود ہیں اور رہیں گے آپ اپنی اپنی کمپنی کے مطابق اپنے اپنے عزائم کے مطابق انہیں جونسا مرضی لیبل لگا کر سیاسی مارکیٹ چمکائیں ان کی نشاندہی علامہ اقبال نے ایک ازم چراغ مصطفوی اور دوسرے ازم کو شرار بولہی کی جنگ سے کی ہے اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں، ایک رحمن کا ازم ہے تو ایک شیطان کا حق و باطل ظالم و مظلوم، امن و دہشت گردی، مسلم، کافر، سیاہ و سفید ، شام و سحر ان سے باہر نہیں جایا جا سکتا۔ نام بدلے جا سکتے ہیں جسم بدلے جا سکتے ہیں روح وہی رہے گی۔
حیرت ہے بانیان پاکستان علامہ اقبالؒ اور قائد اعظمؒ سے تو کوئی ازم موسوم نہ ہو سکا کہ یہ قائد اعظمؒ یا اقبالؒ ازم ہے ساجھے ماجھے کا ازم کیونکر تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ یہاں کوئی ازم یا کوئی سکرپٹ ہے جو قوم کو منظور ہے اور پاکستان کی بقاءاستحکام کا باعث ہے تو وہ وہی نعرہ لا الہ الااللہ محمد الرسول اللہ جسکی بناءپر یہ حاصل کیا گیا زرداری صاحب نے اپنے آپ کو زیرک سیاستدان کے طور پر منوایا ہے اور موجودہ سیاسی ملکی بحران جو کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ سے منسوب کیا جا رہا ہے اس میں محب وطن پارلیمنٹ جمہوریت کے ساتھ اپنی مضبوط کمٹمنٹ کا ثبوت دیا بینظیر صاحبہ کی شہات پر پاکستان کھپے کا نعرہ بھی تاریخی نعرہ لگایا ہے ابھی بلاول کی تربیت صرف جلسوں تک ہی کریں ان کے ذریعہ سے بی بی کا ووٹ بنک کیش کرائیں۔ حکومت بھی ہوش کے ناخن لے اللہ تعالیٰ انہیں اور ملک کو ایک گہری سازش سے محفوظ کیا ہے۔ مسلم لیگ خلوص دل سے اپنے ازم لا الہ الااللہ محمد الرسول اللہ کی طرف لوٹ آئے اور اپنی ساکھ اپنی رٹ قائم کرے علامہ اقبالؒ نے یہی فلسفہ بیان کیا ہے۔
بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے
اگر یہ نکتہ حکومت کی سمجھ میں آ جائے تو پھر ” ستے خیراں نیں“