میں نے اپنے ایک کالم میں انتہائی شدت کے ساتھ پرائیویٹ سکول مالکان کی لوٹ گھسوٹ کو ہدفِ تنقید بنایا تھا۔ اور لکھا تھا کہ ان علم فروشوں نے فیسوں کی وصولی میںعوامی استحصال کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ آئے دن فیسوں میں اندھا دھند اضافہ کو یہ لوگ اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اور بچوں کے والدین ان کے ہاتھوں استحصال کروانا اپنا فرض سمجھتے رہے۔ مگر اچانک جب برف پگھلتے پگھلتے بھاپ کی شکل اختیار کرنے لگی تو نا چار والدین سڑکوں پہ نکل آئے۔ تب انتظامیہ بھی عقل کے ناخن لینے پر مجبور ہوئی۔ او ر اس اکھڑ مزاج گھوڑے کو لگام دی۔ گورنمنٹ ابتدا میں زبانی کلامی سر زنش کرتی رہی با لآخر وزیرِ اعظم صاحب کو فرصت ملی تواس نے اس سماجی مسئلہ کی جانب بھی توجہ دی۔ ہدایات صادر ہوئیں تو نجی سکول مالکان نے ایک حد تک فیسوں میں کمی پر غور کیا۔ مگر یہاں بھی اونٹ کے منہ میں زیرہ والی بات ہوئی۔ ابھی اس معاملہ میں اصلاحِ احوال کا پہلو تشنہ بلب ہے۔ خرابیء بسیار ابھی تک موجود ہے۔ فیس کے علاوہ ایسے بے شمار چارجز لاگو ہیں۔ جو بالآخر ان تاجروں کی آمدنی کا معقول ذریعہ ہیں۔ الیکٹرک چارجز مسلسل اضافہ کے ساتھ لاگو ہے۔ اگرچہ اس کے ریٹ میں وقتاََ فوقتاََ کمی آتی رہتی ہے۔ سکول مالکان اس کمی کی پرواہ کیے بغیر اس کی وصولی کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔چلیے یہاں تلک تو خیر والدین بھی کافی حد تک قصور وار ہیں۔ ان کو اپنے بچے کو مہنگے سے مہنگے سکول میں ضرور ڈالنا ہوتا ہے۔ ایک تو بھیڑ چال اس کی وجہ ہے۔ کہ معاشرے میں ساکھ بنی رہے۔یہ بیگمات کا مسئلہ ہے کہ ہم کسی سے پیچھے نہ رہیں۔ دیگر کچھ لوگ اس وہم میں بھی مبتلا ہوتے ہیں۔ کہ جتنا مہنگا سکول ہو گا اتنی بڑھیا پڑھائی بھی ہو گی۔ غرضیکہ تعلیم کے نام پر ہم سب کیا عالم کیا جاہل کیا امیر کیا غریب سب کے سب دھوکہ کھانے پر تیار رہتے ہیں۔ مقصد پروفیشنلزم ہے۔ ا س لیے سخت مقابلہ اور مسابقت کی فضا پائی جاتی ہے۔ ہر کوئی تعلیم کے لیے ۔۔ ــــــمنجی پیڑی ــــــ ۔۔ ٹھونک کے بیٹھا ہے۔ اور نکو نک ہوتے ہوئے بھی لٹنے پر کمر بستہ کھڑے ہیں۔ اگرچہ اس روش اور مسابقت کے بظاہر بہت سے فائدے ہیں۔ بشرطیکہ سرکار باوقار اس اہم مسلئے کی جانب توجہ دے اور اس پرائیویٹ تعلیمی ڈھانچے کو ریگولیٹ کرے۔ تاکہ والدین نجی سکولوں کی لوٹ کھسوٹ سے محفوظ رہیں۔ ہمارے ہاں گورنمنٹ سکولوں کی حیثیت اب محض محکمہ روزگار کی حد تک رہ گئی ہے۔ جہاں بے شمار انگنت ٹیچرز فوج ظفر موج کی شکل میں موجود ہیں۔ جن کو ہر ماہ تنخواہ کی مد میں اربوں رقم کی ادائیگی ہوتی ہے۔ مگر نتیجہ کسی ایک طبقہ کے حق میں بھی بہتر برآمد نہیں ہو رہا۔ تنخواہ یافتہ طبقہ بھی اپنے آپ کو معاشرے کا استحصالی طبقہ سمجھتا ہے۔ کیونکہ وہ محض دال روٹی اور کپڑا پر اکتفا کرنے کو تیار نہیں۔ پبلک بھی ان سرکاری سکولوں سے حاصل شدہ تعلیم سے معاشرے کی کوئی خاطر خواہ خدمت سر انجام نہیں دے پا رہے۔ چنانچہ دونوںطبقات میں ایک بھر پور انتقامی جذبہ پروان چڑھ رہا ہے۔ ان سکولوں کے تعلیم یافتگان نوجوانوں کے روزگار کا علاقہ سکول ماسٹر ، پولیس مین، یا زیادہ سے زیادہ سرکاری پٹوار ۔ کارکردگی آپ کے سامنے ہے۔ زبان کچھ کہنے سے عاجز ہے۔ انتہائی شرم ناک صورتِ حال کے با وجود ہم سب اس سسٹم میں زندہ رہنے پر مجبور ہیں۔ نجی سکولوں کے فارغ التحصیل طلبہ و طالبا ت گورنمنٹ سیکٹر میں ملازمت اختیار کرنے کو کسرِ شان سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک گورنمنٹ کے تمام محکمے انتہائی کرپٹ اور سیاست زدہ ماحول کا گڑ ہیں۔ جہاں یہ جدید نسل جو اپنے آپ کو روشن خیال اور ایماندار سمجھتی ہے کام کرنے کو تیار نہیں ۔اس لیے تعلیم کا محکمہ انتہائی روایتی اور فرسودہ سوچ و فکر کے تحت اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہا ہے۔ اب اس محکمہ کا کام محض سکول عملہ کی پوسٹنگ ٹرانسفر ،ان کی پروموشن ڈیموشن اور ریکروٹمنٹ تک محدود ہے۔ بدلتے حالات کے مطابق تعلیمی پالیسیاں وضع کرنا وغیرہ جیسے کام اب فرشتوں کے سپرد ہیں۔ افسران اس تخلیقی عمل سے گریز پا رہتے ہیں۔ اس کام میں ہاتھ ڈالنے سے ان کے ہاتھ جلتے ہیں۔ چنانچہ محکمہ تعلیم کا افراد کی بجائے سارے کا سارا نظام اس آگ میں بھسم ہو چکا ہے۔ گورنمنٹ جب چاہے اللہ کا نام لے کر اس محکمہ کا بسترا گول کر سکتی ہے۔ بے تحاشہ اخراجات کا دروازہ بند ہونا چاہیے۔ جب اس بیمار سسٹم کی قسمت میں شفاء ہی نہیں تو دوا کا فائدہ۔ گورنمنٹ کو فرصت ملی تو یقینا وہ اس پہلو سے سوچے گی ۔ کم از کم کمیٹی ضرور تشکیل پا جائے گی۔ جس کی سربراہی جناب محترم وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار صاحب کو سونپی جائے گی جو چٹکی بجاتے ہوئے اس ٹاسک پر اور کچھ نہیں تو ٹیکس ضرور لگا دیں گے۔ جس سے بے تحاشہ آمدنی کی راہ کھل جائے گی۔ ہم سنتے تھے کہ سابق وزیرِ خزانہ جناب غلام اسحاق خان سانس لینے والی قدرتی آکسیجن گیس پر ٹیکس لگانے والے ہیں۔ یہ محض سنتے تھے مگر عمل درآمد اب آ کے ہوا محترم اسحاق ڈار کے دور میں ۔ اسحاق خان کی روح آپ کی شخصیت میں در آئی ہے ۔ آپ نے اپنے نام کی لاج رکھی ۔ جو خواب محترم غلام اسحاق خان دیکھا کرتے تھے بلکہ جن خوابوں کی تعبیر کی حسرت لیے وہ ا للہ کو پیارے ہو گئے ان کی تعبیر اسحاق ڈار نے اب پوری کر دی۔ اب واقعی عوام سانس لینے کے عوض بھی ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ اس معاشرے میں کوئی بھی تعلیمی پالیسی بنا ڈالو فائدہ بالآخر پوش طبقے کو ہی پہنچے گا۔ نجکاری کے عمل سے بھی پبلک من و عن نجی سکول مالکان کے رحم و کرم پر جینے کے لیے مجبور ہو جائے گی ۔ چنانچہ لگتا یہی ہے کہ یہ تجویز عوام کے لیے بہت مفید رہے گی۔ جسے بابا بلھے شاہ نے آج سے تقریباََ ڈھائی سو سال قبل عرفِ عام میں لانچ کیا تھا۔۔۔علمو ں بس کریں او یار۔۔۔ آخر میں نریندر مودی کے نام ایک چھوٹی سی پنجابی نظم: ۔
چھڈ دے مودی ساریاں گلاں تیرا ساڈا جھگڑا کاہدا
نئیں تے وچ میدان دے آ جا پچھوں مڑ کے ویکھنا کاہدا
جے اج پاکستان دے اندر چائنہ کاروبار پھیلایا
ہندستانی بنئیے تینوں ایہناں پَے گیا رولا کاہدا
پرچم پاکستان دا پھڑ کے سارے بیَ جائو ایندے تھلے
جتھے کوئی پنچائت نہ ہووے اوتھے َسر نوں پھڑنا کاہدا
پھر ستمبر دے موسم نے بھارت تینوں تاپ چڑھایا
جے کر تیر ا سَر د ا نا ہیںٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ آ جا ساتھوں ٹینڈ کراجا
بھل گیا واں جوش دے اندر سارے طور طریقے ملکا
ردیف دا ورنہ دوسرے مصرے دے وِچ جا کے بھلنا کاہدا
علموں بس کریں او یار
Oct 26, 2015